استنبول کے میئر کی گرفتاری کے خلاف احتجاج، ترک حکام نے درجنوں صحافیوں کو حراست میں لے لیا

ترکی میں استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کی گرفتاری کے خلاف احتجاج شدت اختیار کر گیا، جس کے دوران ترک حکام نے متعدد صحافیوں کو بھی گرفتار کر لیا۔ میڈیا ورکرز یونین ڈسک-باسن-اس کے مطابق، کم از کم 8 صحافیوں اور فوٹو جرنلسٹس کو ان کے گھروں سے حراست میں لیا گیا۔ یونین نے اس کارروائی کو "صحافتی آزادی اور عوام کے حقِ معلومات پر حملہ” قرار دیتے ہوئے فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
اتوار کے روز ترک عدالت نے امام اوغلو کو بدعنوانی، بلیک میلنگ، رشوت لینے اور غیرقانونی ڈیٹا ریکارڈنگ جیسے الزامات کے تحت گرفتار کرنے کا حکم دیا، جس کے بعد انہیں سلوری جیل منتقل کر دیا گیا۔ امام اوغلو نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے جبکہ حکومت نے انہیں عارضی طور پر میئر کے عہدے سے معطل کر دیا ہے۔
ان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے، جن میں اب تک 1133 افراد گرفتار ہو چکے ہیں جبکہ 123 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ وزیر داخلہ علی یرلی کایا نے الزام عائد کیا کہ احتجاج کے دوران مظاہرین سے تیزاب، آتش گیر مواد اور چاقو برآمد کیے گئے، جبکہ حراست میں لیے گئے بعض افراد کے دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات ہیں۔
امام اوغلو کی 2019 کے بلدیاتی انتخابات میں فتح کو صدر رجب طیب اردگان اور ان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کو اردگان کی 2028 کے صدارتی انتخابات میں ممکنہ مخالفت سے چھٹکارے کی ایک کوشش سمجھا جا رہا ہے، جس پر ترکی کی عدلیہ کی آزادی پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔