14 رمضان المبارک؛ یوم شہادت حضرت مختار ثقفی رضوان اللہ تعالی علیہ

یوم شہادت حضرت مختار ثقفی رضوان اللہ تعالی علیہ کے موقع پر مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ بیانات کے اقتباسات پیش ہیں جو آپ نے اپنے علمی جلسات میں بیان کئے ہیں۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے فرمایا: حضرت مختار اور ان کے قیام کے سلسلہ میں روایات مختلف ہیں، جن میں کچھ مثبت روایتیں ہیں اور کچھ منفی روایات ہیں۔ وہ تمام روایتیں یا مرسل ہیں یا ضعیف ہیں۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے فرمایا: جناب مختار کے سلسلہ میں مرجع تقلید راحل آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد حسینی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ جناب مختار نیک انسان تھے اور ان کا قیام صحیح تھا۔ لہذا اگر یہ کتاب آپ کو دستیاب ہو جائے تو اسے ضرور مطالعہ کریں جس سے معلومات میں اضافہ ہوگا۔
جناب مختار بن ابی عبید ثقفی کی کنیت ابو اسحاق اور لقب کیسان تھا، ان کے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے عظیم صحابی تھے اور حضور کے بعد خلیفہ دوم کے زمانے میں جنگ جسر میں قتل ہوئے اور ان کی والدہ دومہ بنت عمرو بن وہب تھیں جن کا ابن طیفور نے ماہر فصاحت و بلاغت کے عنوان سے تذکرہ کیا ہے۔
جناب مختار کے چچا سعد بن مسعود ثقفی امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی جانب سے مدائن کے گورنر تھے، جناب مختار کے بھائی وہب، مالک اور جبر اپنے والد کے ساتھ جنگ جسر میں قتل ہو گئے تھے۔
جناب مختار ہجرت کے پہلے سال پیدا ہوئے۔
جب امام حسین علیہ السلام کے سفیر حضرت مسلم بن عقیل کوفہ تشریف لائے تو جناب مختار کے گھر میں قیام فرمایا۔ امام حسین علیہ السلام اور جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام سے وابستگی کے سبب جناب مختار کو قید کر لیا گیا لہذا آپ واقعہ کربلا میں شریک نہ ہو سکے۔
سن 64 ہجری میں مختار کوفہ تشریف لائے اور شہر کے شیعوں اور بزرگان سے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا انتقام لینے کے لئے مدد طلب کی اور اسی سبب دوبارہ گرفتار ہوئے۔
جناب مختار اپنی دوسری گرفتاری سے قبل قیام توابین کے سردار جناب سلیمان بن صرد خزائی کے ہمراہ اور حامی تھے لیکن ان کے قیام کے دوران عبداللہ بن زبیر کے قید خانے میں تھے۔ توابین کی شہادت کے بعد جناب مختار نے رابطہ کیا اور قیام کی راہ ہموار کی۔
قید خانے سے آزادی کے بعد جناب مختار نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا بدلہ لینے کے لئے لشکر تیار کرنے میں مصروف ہو گئے۔
جناب مختار کی دعوت پر بہت سے شیعوں نے لبیک کہا اور ان لشکر میں شامل ہو گئے۔
جناب ابراہیم بن مالک اشتر نخعی جیسے عظیم شیعہ جناب مختار سے ملحق ہوئے اور قیام کے لئے راہ ہموار کی۔ 14 ربیع الاول سن 64 ہجری کو جناب مختار نے اپنے قیام کا آغاز کیا اور کوفہ کی حکومت حاصل کر لی۔
کوفے کے انقلابیوں نے "یا لثارات الحسین” اور "یا منصور امت” کے نعروں کے ساتھ قیام کا آغاز کیا اور دشمن کو شکست دے کر کوفہ کی حکومت حاصل کی اور عبداللہ بن زبیر کے نمائندے کو کوفہ کے باہر کر دیا۔
جناب مختار اور ان کے لشکر نے اپنے قیام سے جلد ہی عراق کے مختلف علاقوں پر حکومت حاصل کی اور اشراف کوفہ نے جناب مختار کی بیعت کی۔
جناب مختار کے قیام میں واقعہ کربلا کے مجرم شمر بن ذی الجوشن، خولی بن یزید، عمر بن سعد اور عبید اللہ بن زیاد جیسے ملاعین واصل جہنم ہوئے۔ انہوں نے عبید اللہ بن زیاد اور عمر بن سعد کا سر مدینہ میں امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا۔
آخر کار 18 ماہ حکومت اور 3 گروہ آل مروان اور ان کے حامی، آل زبیر اور ان کے حامی اور کوفہ کے منافقوں سے جنگ کی اور 14 رمضان المبارک سن 67 ہجری کو کوفہ میں مصعب بن زبیر کے ذریعہ شہید ہوئے۔
ان کی شہادت کے بعد ان کے تقریباً 7000 حامی جو دارالامارہ میں محصور تھے سب کو مصعب نے قتل کر دیا۔