
مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا کی شدت، مسلمانوں اور مذہبی مقامات پر حملوں میں اضافہ کے ساتھ اس رجحان سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی اقدامات کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔
بین الاقوامی حکام اس مسئلہ پر فیصلہ کن رد عمل کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
مغرب میں اسلامو فوبیا ایک سنگین اور پھیلتے ہوا مسئلہ بن گیا ہے۔
حالیہ برسوں میں خاص طور پر غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے بعد ہم نے مختلف یورپی ممالک میں مسلمانوں اور مذہبی مقامات پر حملوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھا ہے۔
قرآن کریم کو جلانا، معاشرے میں روز بروز امتیازی سلوک، مساجد پر حملے اور مسلمانوں کے لئے پابندیاں سخت کرنا ان مثالوں میں شامل ہیں جو ان معاشروں میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔
اس صورتحال کے جواب میں ترکی جیسے ممالک نے اقوام متحدہ سے اس رجحان سے نمٹنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
حال ہی میں ترکی نے اقوام متحدہ سے اسلامو فوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم سے نمٹنے کے لئے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس درخواست کو پہلے کی نسبت زیادہ توجہ ملی ہے، خاص طور پر سویڈن، ڈنمارک اور فرانس جیسے مغربی ممالک میں قرآن کریم اور مساجد پر حملوں میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے۔

رپورٹس کے مطابق کچھ یورپی ممالک جیسے جرمنی اور آسٹریا میں ہم نے روزمرہ زندگی میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات میں اضافہ دیکھا ہے۔
جرمنی میں 2023 میں مسلم مخالف جرائم کی تعداد دگنی ہو گئی اور ڈنمارک میں 500 سے زائد قرآن کریم جلانے کے واقعات ریکارڈ کئے گئے ہیں۔
اس صورتحال میں حکام اور انسانی حقوق کے اداروں کو اس رجحان سے نمٹنے کے لئے فوری بین الاقوامی اقدام کی ضرورت پر ضرور دیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اسلاموفوبیا اب یورپی معاشروں میں پرامن بقائے باہمی کے لئے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے، جس سے اس مسئلہ کی شدت کو روکنے کے لئے فیصلہ کن اور فوری مداخلت کی ضرورت ہے۔