شام کے ٹوٹنے کا خطرہ، علاقائی طاقتوں کے تصادم اور ملک کے مستقبل میں نئی تبدیلی

شام میں طویل جنگ کے بعد علاقائی طاقتوں کی جانب سے ملک کو چار مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کے نئے خطرات نے شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔
اس دوران شام کے مستقبل پر اسرائیل اور ترکی کے درمیان کشیدگی نے بحران کو پیچیدہ بنا دیا ہے اور ملک کے اتحاد کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
برسوں کی جنگ اور تباہی کے بعد شام اب تعمیر نو کے دہانے پر ہے لیکن غیر ملکی طاقتوں بالخصوص اسرائیل اور ترکی کی جانب سے ملک کے اتحاد کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
ان خطرات میں سے ایک شام کو چار سنی، علوی، دروزی اور کرد علاقوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے، جس نے اس ملک کے سیاسی اور سماجی مستقبل کے بارے میں بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے۔
اسرائیل اپنی سلامتی کو یقینی بنانے اور سرحدوں پر خطرات کو کم کرنے کے مقصد سے شام کے جنوبی علاقے کو غیر فوجی بنانے اور دروزی کمیونٹی کا استحصال کر کے اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے شام کو چھوٹے یونٹوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب ترکی جو شروع سے ہی شام کے اتحاد کو برقرار رکھنے پر زور دیتا رہا ہے خاص طور پر شمالی شام اور کردوں کے زیر اثر علاقوں کے معاملے میں ان منصوبوں کے خلاف ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے خبردار کیا کہ ان کا ملک شام کی تقسیم کی اجازت نہیں دے گا اور اس ملک میں عدم استحکام کے ذریعہ اسرائیل کی سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔
یہ محاذ آرائی اور شام کو تقسیم کرنے کی مختلف کوششیں شام اور خطہ کے مستقبل کے لئے بہت سے خطرات لاحق ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ شام کے اتحاد کو برقرار رکھنا تمام شامی، علاقائی اور بین الاقوامی فریقوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے تاکہ مزید تنازعات اور بحران میں اضافہ سے بچا جا سکے۔