5 شعبان المعظم، یوم ولادت باسعادت امام زین العابدین علیہ السلام
امام زین العابدین علیہ السلام ہمارے چوتھے امام ہیں، آپ کے والد ماجد سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور والدہ ماجدہ حضرت شہر بانو سلام اللہ علیہا تھیں۔ آپ کا نام ‘‘علیؑ’’، کنیت ابوالحسن اور القاب زین العابدین، سید الساجدین، سجاد اور ذوالثفنات ہیں۔ آپ اپنے زمانے میں ‘‘علی الخیر’’ اور ‘‘علی العابد’’ کے نام سے مشہور تھے۔
امام زین العابدین علیہ السلام عادل حاکم امیرالمومنین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کے دور حکومت میں 5؍ شعبان المعظم یا دوسری روایت کے مطابق 15؍ جمادی الاول سن 38 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ 21؍ رمضان سن 40 ہجری تک اپنے جد بزرگوار مولی الموحدین امیرالمومنین امام المتقین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کے زیر سایہ پروان چڑھے، جب ان کی شہادت ہوگئی تو اپنے چچا سبط اکبر رسول خدا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے دس سالہ دور امامت میں زندگی بسر فرمائی۔ انکی شہادت کے بعد اپنے والد ماجد امام حسین علیہ السلام کے زیر سایہ عصر عاشور تک زندگی بسر فرمائی۔
امام زین العابدین علیہ السلام کو آغاز امامت میں ہی اموی و یزیدی ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ، یا یوں کہا جائے کہ صبح قیامت تک انسانیت کی محافظ تحریک کربلا کہ جس تحریک کے دو باب ہیں ایک باب شہادت دوسرا باب اسارت ہے۔ شہداء کربلا نے اپنی قربانیاں پیش کرتے ہوئے عروس شہادت کو گلے لگایا ، شہادت کے بعد نوبت اسارت کی تھیں قافلہ شہادت کے میر کارواں امام حسین علیہ السلام تھے اوراسیران کربلا کے میر کارواں امام زین العابدین علیہ السلام تھے اور اس قافلہ سالاری میں آپ کی مددگار آپ کی پھوپھی حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا تھیں۔
میدان کربلا میں شہداء کی شہادت کے بعد یزید اور یزیدی یہی سمجھے کہ ہم کامیاب ہوگئے، ہم نے دین خدا کو ختم کر دیا، انسانی اقدار کو پامال کر دیا ، اہل حرم کہ جنمیں ایک بیمار امام کے علاوہ خواتین و بچے ہیں، لہذا جب ان پر بھی ظلم ہو گا تو کون اعلاء کلمۃ اللہ کرے گا؟
لیکن تاریخ نے دیکھا کہ یہ ایسے اسیر تھے جنہوں نےہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسلام کو آزاد اور انسانیت کو آزادی کا حوصلہ اور نہ صرف یزیدیت بلکہ پورے سلسلہ ظلم و غصب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قید کر دیا اور ابدی ذلت و رسوائی اور عذاب ان کامقدر بنا دیا۔