خبریںدنیاسیسٹیمیٹک

دنیا میں دائیں بازو کی جماعتوں کا عروج، بائیں بازو کی جماعتوں کی مقبولیت میں پہلے سے کہیں زیادہ کمی

ٹیلی گراف کی نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں مقبولیت میں ڈرامائی کمی کا شکار ہوئی ہے اور کئی حالیہ انتخابات ہار چکی ہیں۔

دوسری جانب، دائیں بازو کے دھارے تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور کچھ ممالک میں زیادہ کامیاب ہو رہے ہیں۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

دنیا بھر میں 73 پولز پر مبنی ٹیلی گراف کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ بائیں بازو کا سیاسی اور معاشی نقطہ نظر پہلے سے کہیں زیادہ ناپسند ہے۔

سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد سے بائیں بازو کی جماعتوں نے دنیا کے کئی ممالک میں مقبولیت میں تیزی سے کمی دیکھی ہے۔ حالیہ انتخابات میں صرف 45 فیصد ووٹ حاصل کر پائے ہیں۔

امریکہ میں بائیں اور دائیں جماعتوں کی مقبولیت گہری تقسیم تک پہنچ چکی ہے۔

دائیں جماعت 57 فیصد ووٹ لے کر جیتنے میں کامیاب رہی جبکہ بائیں بازو کی پارٹی کو 42 فیصد ووٹ ملے۔

یہ فرق امریکی صدارتی انتخابات میں اور بھی واضح ہوا، جہاں ڈنالڈ ٹرمپ نے اپنی ڈیموکریٹک حریف کملا ہیرس کے 75 ملین ووٹوں کے مقابلے میں 77 فیصد ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔

یہ رجحان دوسرے ممالک میں بھی نظر آتا ہے۔

کینیڈا میں رائے شماری ظاہر کرتی ہے کہ کنز رویٹو پارٹی کے رہنما پیئر پولیور بائیں بازو کے رہنما کے اچانک استعفی کے بعد جسٹن ٹروڈو کی جگہ کے لئے پسندیدہ ہیں۔‌

جرمنی اور آسٹریلیا میں بائیں بازو کی جماعتوں کو بھی ایسے ہی چیلنجز کا سامنا کرنے کی توقع ہے۔

ماہرین اس رجحان کی وجہ مختلف ممالک میں انتہائی امیگریشن پالیسیوں اور دائیں بازو کے کرنٹوں کے سخت رویہ کو قرار دیتے ہیں جو بہت سے ووٹروں کی رائے کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

مختلف ممالک میں دائیں بازو کی جماعتوں کی جیت مسلمانوں کے لئے اہم نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔

یہ جماعت عام طور پر سخت اور اسلام مخالف امیگریشن پالیسیوں کو فروغ دیتی ہیں جو اسلامو فوبیا، مسلمانوں کے لئے مزید پابندیوں اور ان کے خلاف سماجی اور قانونی امتیاز میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہیں۔

مثلا کچھ ممالک میں دائیں بازو کی جماعتوں نے مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں کو محدود کرنے اور نئی مساجد کی تعمیر کو روکنے کے لئے دباؤ ڈالا ہے۔

اس کے علاوہ سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے لئے سخت پالیسیاں مسلمانوں کی مغربی ممالک تک رسائی کو محدود کر سکتی ہیں۔

اس صورتحال میں مسلمانوں کو سماجی، ثقافتی اور مذہبی میدانوں میں شدید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button