امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس کے کئی حصوں میں جنگلات میں لگنے والی آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے، تیز ہوائیں آگ پر قابو پانے میں رکاوٹ ہیں۔ ایک اندازے کےمطابق دس ہزار فائر فائٹرز ایک ہزار فائر انجن کے ساتھ کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی شہر لاس اینجلس میں لگنے والی خوفناک آگ تین روز بعد بھی نہ بجھائی جاسکی، اموات کی تعداد دس تک جاپہنچی ہے، درجنوں افراد زخمی ہیں، 29 ہزار ایکڑ سے زائد رقبہ آگ سے متاثر ہے۔
رپورٹس کے مطابق 10 ہزار سے زائد عمارتیں جل کر تباہ ہوگئیں، ایک لاکھ 80 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے، لاکھ افراد کو گھر چھوڑنے کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ جب کہ آگ لگنے سے 150 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ابتدائی تخمینوں میں 60 ہزار بلڈنگوں کو خطرناک قرار دے دیا گیا ہے، موسمی حالات اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے سبب خیال کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہوا ان شعلوں کی شدت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
پولیس نے آتش زنی کے شبے میں ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جبکہ خالی کرائی گئی املاک لوٹنے کے الزام میں بھی 20 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
لاس اینجلس کے شیرف رابرٹ لونا کا کہنا ہے کہ آگ سے متاثرہ علاقے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان علاقوں میں ’ایٹم بم گرایا گیا ہے‘۔
رابرٹ لونا نے جمعرات کو نیوز کانفرنس میں کہا کہ اگرچہ میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ 5 افراد ہلاک ہوچکے، لیکن یہ میرے ہونٹوں سے نکل رہا ہے، میں اس نمبر کے بارے میں پریشان ہوں۔
شیرف نے کہا کہ وہ دعا کر رہے ہیں کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو، لیکن جو تباہی واضح ہے اس کی بنیاد پر ’اچھی خبر‘ کی توقع نہیں ہے۔