اسلامی دنیاافغانستانخبریں

افغانستان میں طالبان کی مشتبہ بستیاں

طالبان نے مہاجرین کو بسانے کے لئے افغانستان کے 9 صوبوں میں نئی بستیاں بنائی ہیں۔لیکن معتبر ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بستیاں دراصل غیر ملکی جنگجوؤں کا ٹھکانہ بن رہی ہیں اور اقلیتی علاقوں کی آبادی کا ڈھانچہ بدل رہی ہیں۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

ان دنوں جب کہ افغانستان کے بدن پر ابھی جنگ کے زخم تازہ ہیں، طالبان نے بنیادی طور پر غیر پشتون نسلی گروہوں کے 9 صوبوں میں آباد کاری کے لئے اپنے وسیع منصوبوں سے نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔

28000 ایکڑ اراضی جو کہ تاریخی طور پر نسلی اور ثقافتی اعتبار سے متنوع ہے، اب نام نہاد داخلی مہاجرین کی آبادکاری کے لئے مختص کی گئی ہے۔

لیکن متعدد شواہد اور رپورٹس سے ایک زیادہ پیچیدہ منصوبے کا پتہ چلتا ہے، ایک ایسا منصوبہ جو امیگریشن کے بحران کا جواب دینے کے بجائے آباد کاری کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں اور طالبان کے اثر و رسوخ میں توسیع کا خواہاں ہے۔‌

بظاہر یہ منصوبہ افغانستان کے اندر بے گھر افراد اور پاکستان سے واپس آنے والوں کی مدد کے لئے نافذ کیا جا رہا ہے، لیکن مصدقہ اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بستیاں بنیادی طور پر پاکستانی طالبان اور یہاں تک کہ القاعدہ کے ارکان کے لئے بنائی گئی ہیں۔

اس سے پہلے غزنی اور پکتیا میں دسیوں ہزار پاکستانی طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کے رہنے کے لئے بستیاں تعمیر کی گئی تھیں۔

اب ان علاقوں میں جہاں ہزارہ، تاجک اور ازبک نسلی گروہ رہتے ہیں یہ کاروائیاں نہ صرف خطہ کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں بلکہ ان نسلی گروہوں کو پسماندہ کرنے کی کوشش بھی ہیں۔

دیگر حساس معاملات میں ایک قوش تپہ نہر منصوبہ ہے۔ یہ شمالی افغانستان میں ایک بڑا منصوبہ جو خطہ کی زراعت میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔

لیکن کچھ مقامی ذرائع اور سیکورٹی ماہرین نے خبردار کیا کہ طالبان اس نہر کے گرد ڈیورنٹ لائن کے دوسری جانب پشتونوں کو آباد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‌

اس کاروائی سے نہ صرف خطہ کی آبادی کا ڈھانچہ تبدیل ہو جائے گا بلکہ یہ نسلی اور علاقائی کشیدگی کا ایک نیا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔‌

قوش تپہ کے آس پاس کی زرخیز زمینیں جو پہلے شمالی قبائل کا حصہ ہوا کرتی تھی اب طالبان کے غلبہ کے لئے ایک اسٹریٹیجک ہدف بن چکی ہیں۔

یہ تبدیلی افغانستان کے سماجی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لئے طالبان کی طویل المدتی پالیسیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔‌

اگرچہ ان علاقوں کے مقامی لوگ جن میں ہزارہ اور تاجک بھی شامل ہیں، اپنی آبائی زمینوں کو کھونے کے بارے میں فکرمند ہیں، طالبان ان خدشات کو نظر انداز کرتے ہیں اور اپنے منصوبوں کو آگے بڑھا ہمرہے ہیں۔

آخر میں جو منصوبہ بظاہر مہاجرین کی مدد کے لئے بتایا جا رہا ہے وہ انسانی بحران کے جواب سے زیادہ ہیں، یہ طالبان اور ان کے غیر ملکی اتحادیوں کے سیاسی اور فوجی تسلط کا ایک آلہ ہیں۔

ان اقدامات سے نہ صرف افغانستان کے اندرونی استحکام کو خطرہ ہے بلکہ اس سے خطہ اور دنیا کے لئے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button