طالبان حکومت کے زیر سایہ افغان شیعوں کی ابتر معاشی صورتحال
طالبان کے دور حکومت میں افغان عوام بالخصوص شیعوں کے معاشی صورتحال بہت خراب ہو چکی ہے۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف معاشی حالات بہتر نہیں ہوئے بلکہ لوگوں کے حالات زندگی روز بروز بدتر ہوتے گئے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کی معاشی صورتحال خاص طور پر مذہبی اقلیتوں بالخصوص اہل تشیع کے لئے انتہائی تشویش ناک ہے۔بہت سے لوگوں نے خاص طور پر ملک کے شیعہ علاقوں میں اپنے مشکل حالات زندگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
طالبان کے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد عدم استحکام اور انتظامی مسائل کے سبب بہت سے کاروبار بند ہو گئے اور بے روزگاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔کچھ علاقوں خاص طور پر دارالحکومت اور بڑے شہروں میں لوگوں کو روزگار کے مواقع کی کمی، بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بنیادی خدمات کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
بے روزگاری پھیلی ہوئ ہے اور صلاحیت اور معیار سے گر کر نوکریاں کرنے والے لوگ غربت اور محرومی کا شکار ہیں۔ان معاشی مسائل کے علاوہ طالبان کے ٹیکس کے دباؤ نے جو ٹیکسز کے صورت میں عوام سے دسواں حصہ وصول کیا جاتا ہے لوگوں کے لئے حالات کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
افغانستان میں شیعوں کو خاص طور پر مذہبی اور نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔ان اقلیتیوں کے بارے میں طالبان کے منفی نقطہ نظر نے بہت سے شیعوں کو سرکاری اور نجی ملازمتوں میں مناسب مقام حاصل کرنے سے روک دیا ہے۔
دوسری جانب بہت سے لوگ جو سابقہ جمہوری حکومت کے دوران مختلف ملازمتوں میں سرگرم تھے مذہبی اور نسلی دباؤ کے سبب اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور نقل مکانی یا صلاحیتوں سے گر کر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں ۔
طالبان کے دور میں عمومی طور پر افغانستان کے معاشی صورتحال کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اب بھی اس میں بہتری کے کوئی واضح امکانات نظر نہیں آتے۔