اسد حکومت کے خاتمہ کے بعد شامی شیعوں میں خوف و امید، نئے حکمرانوں کے پرچم تلے زندگی
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمہ اور سنی مذہبی گروہوں کے عروج کے بعد شامی شیعہ خوف و امید کے ساتھ اپنے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں۔
ان میں سے بہت سے لوگ لبنان میں پناہ لے چکے ہیں لیکن ملک کے اندر مستقبل کی غیر یقینی صورتحال ان کے ذہنوں پر قابض ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی تیار کردہ رپورٹ پر توجہ دیں۔
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمہ کے بعد شام ایک نئے دور میں داخل ہوا جہاں نئے حکمران بنیادی طور پر سنی اسلام پسند گروہ ہیں۔اگرچہ ان گروہوں نے شیعہ اور علوی سمیت اقلیتوں کی حمایت کا وعدہ کیا ہے لیکن بہت سے شیعہ فرقہ وارانہ خطرات اور ماضی کے تشدد کے سبب خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔لبنان میں مذہبی اقلیتوں کے 100000 سے زیادہ افراد خاص طور پر شیعوں نے پناہ لی ہے۔
یہ پناہ گزین سوشل میڈیا اور ذاتی طور پر ملنے والی دھمکیوں کے سلسلہ میں بات کرتے ہیں۔ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ ان کے گھروں کو لوٹ لیا گیا اور انہیں شام چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ایک مہاجر نے کہا: "ہمارا گھر جلا دیا گیا اور ہمیں فرار کرنا پڑا”
تاہم شمالی شام کے کچھ دوسرے شیعہ مستقبل کے لئے پر امید ہیں اور وہ تحریر الشام گروپ کی بات کرتے ہیں جنہوں نے انہیں ان کے گھر واپس جانے کو کہا ہے۔حسین سامان نامی ایک باپ نے کہا: "اب جب کہ جنگ ختم ہو چکی ہے مجھے امید ہے کہ میرے بچے پرامن زندگی گزار سکیں گے۔”
شام میں شیعوں کا مستقبل نئی حکومت کے تحت اب بھی غیر یقینی فضا میں ہے۔
حال ہی میں روضہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا، روضہ حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا اور اموی مسجد کے اندر سے شائع ہونے والی کچھ ویڈیوز سے شامی شیعوں کی تشویش میں مزید اضافہ ہوا۔یہ ویڈیوز جنہیں شدت پسند سنیوں نے وائرل کیا ہے ان میں بنی امیہ کے نظریات کی جانب واپسی اور شیعوں کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔
ان ویڈیوز میں کچھ لوگ اونچی آواز میں اور دھمکی آمیز لہجہ میں بول رہے ہیں کہ نئی حکومت کو رافضیوں (شیعوں) سے نمٹنا چاہئیے اور شیعوں کو ایک خطرے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
اس کے علاوہ شیعوں کے لئے ایک اور تشویش ناک تبدیلی شام میں برسر اقتدار آنے والی مسلح افواج کی جانب سے حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کے روضوں میں معصومین علیہم السلام کے اسماء گرامی تحریر بینرز اور پرچم کو ہٹانا ہے۔
ان اقدامات سے شیعوں کے دلوں میں حراس و پریشانی اور خطرات بڑھ گئے ہیں۔
خاص طور پر بہت سے شیعہ ان روطوں کو اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک محفوظ جگہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ان اقدامات اور دھمکیوں نے بہت سے شامی شیعوں کو یہ محسوس کیا کہ ان کے لئے حالات ابھی تک غیر مستحکم ہیں اور نئی حکومت کے زیر سایہ مستقبل چیلنجز اور خطرات سے بھرا ہوا ہے۔
فرقہ وارانہ تشدد اور موجودہ خطرات کا خوف اب بھی شیعوں کے دلوں میں موجود ہے اور مستقبل کے نقطہ نظر کو پہلے سے کہیں زیادہ مبہم بنا دیتا ہے۔