آج چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوناتھن کی بینچ نے کہا ہے کہ ’’اب عبادتگاہوں کی قانونی حیثیت کے خلاف کوئی بھی مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔‘‘
عدالت نے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے تمام شہری عدالتوں کو ایسے مقدموں پر سماعت سے باز رکھا ہے جن میں کسی بھی عبادتگاہ کی ملکیت یا اس کے نام کو چیلنج کیا جائے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ ۱۹۹۱ء کے ’’پلیس آف ورشپ ایکٹ‘‘ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والے عرضیوں پر سماعت کررہی تھی۔
یاد رہے کہ ’’اس ایکٹ کے تحت کسی بھی عبادتگاہ کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور اسکی قانونی حیثیت وہی رہے گی جو ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو تھی۔‘‘اس معاملے میں سب سے اہم عرضی ۲۰۲۰ء میں داخل کی گئی تھی جس کے بعد مارچ ۲۰۲۱ء میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔
مرکزی حکومت نے اب تک اس معاملے پر حلف نامہ داخل نہیں کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ملک کی تمام عدالتوں کو ایسی عرضیوں پر فیصلہ سنانے سے باز رکھا ہے جس میں کسی بھی عبادت گاہ کی ملکیت یا اس کے نام کو چیلنج کیا گیا ہو۔
عدالت نے سماعت کے درمیان کہا کہ ’’عبادتگاہوں کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والے عرضیوں پر کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔ ایسی عرضیوں پر نہ ہی سماعت کی جائے گی اور نہ ہی فیصلہ سنایا جائے گا۔‘‘
عدالت نے مرکز کو اپنا جواب دینے کیلئے ۴؍ہفتے کا وقت دیا ہے۔ یاد رہے کہ اس معاملے میں بہت سی عرضیاں داخل کی گئی ہیں جن میں ۱۹۹۱ء کے ایکٹ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔
عرضی دہندگان میں وکیل اشوینی کماراپادھیائے بھی شامل ہیں جنہوں نے اعتراض کیا تھا کہ اس ایکٹ نے ہندوؤں، جین اور سکھوں پر عدالت میں عبادتگاہ پر دعویٰ کرنے سے باز رکھا ہے۔ مسلم تنظیمیں جیسے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) اور جمعیت علمائے ہند نے ان عرضیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
عدالت نے اپنی سماعت میں کہا ہے کہ ’’اس معاملے کی اگلی سماعت تک زیر التواء عرضیوں پر کوئی عبوری یا حتمی فیصلے نہیں سنائے جائیں گے اور نہ ہی کوئی نیا مقدمہ درج کیا جائے گا۔ ‘‘ عدالت عظمیٰ نے اس ایکٹ کو چیلنج کرنے والے عرضیوں پر سماعت کا آغاز کردیا ہے۔