خبریںہندوستان

سپریم کورٹ کا ’بلڈوزر راج‘ کے خلاف فیصلہ: سرکاری افسران کو جج بننے سے روک دیا

ملک میں بڑھتی ہوئی بلڈوزر کارروائیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ نے بدھ کو ایک اہم فیصلہ سنایا جس میں اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان افسران کے خلاف کارروائی کی ہدایت دی جو بغیر قانونی عمل کے شہریوں کی جائیدادیں مسمار کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ واضح کر دیا کہ سرکاری افسران کسی بھی صورت میں جج کا کردار ادا نہیں کر سکتے اور ملک بھر میں اس سلسلے میں رہنما خطوط جاری کیے۔

جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل بینچ نے آرٹیکل 21 کے تحت رہائش کے حق کو شہریوں کا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے کہا کہ بغیر قانونی عمل کے کسی بھی شہری کی رہائشی یا تجارتی جائیداد کو بلڈوزر کے ذریعے گرانا غیر آئینی ہے۔ بینچ نے افسران کی جانب سے من مانی اور جابرانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے اسے عدالتی اختیارات میں مداخلت قرار دیا اور کہا کہ ایسے اقدامات عدلیہ کے اختیار کو چیلنج کرتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرے، اور کسی شخص کو جرم ثابت ہونے تک بے گناہ تصور کیا جائے۔ عدالت نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا کہ بغیر قانونی کارروائی کے کسی بھی شہری کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا غیر آئینی ہے۔ بینچ نے کہا کہ "خواتین، بچوں اور بزرگوں کو بے گھر ہوتے دیکھنا کوئی خوشگوار منظر نہیں ہے۔”

عدالت نے مزید کہا کہ سرکاری افسران کو قانونی عمل کا پابند بنایا جائے گا اور وہ عدالتوں کے کام اپنے ہاتھوں میں نہیں لے سکتے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ کسی بھی انہدامی کارروائی سے قبل متعلقہ فرد کو کم از کم 15 دن کا نوٹس دیا جائے، جس میں غیر قانونی تعمیرات کی نوعیت اور دیگر تفصیلات شامل ہوں۔ عدالت نے یہ بھی ہدایت دی کہ تمام ریاستوں میں ایسے معاملات کی تفصیلات کو ایک ڈیجیٹل پورٹل پر عوامی رسائی کے لیے فراہم کیا جائے اور انہدامی کارروائی کی ویڈیو گرافی کی جائے۔

سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ اگر کوئی افسر عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو توہین عدالت کے تحت اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، اور وہ افسران جائیداد کی واپسی اور نقصانات کی تلافی کے ذمہ دار ہوں گے۔ عدالت نے کہا کہ جب افسران انصاف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور بغیر مناسب عمل کے بلڈوزر سے شہریوں کی جائیدادیں گرا دیتے ہیں، تو یہ طاقت کے غلط استعمال کی ایک مثال بن جاتی ہے جو آئین میں قطعی ناقابل قبول ہے۔

یہ فیصلہ جمعیت علمائے ہند اور دیگر کی جانب سے دائر درخواست پر سنایا گیا جس میں سرکاری افسران کی من مانی کارروائیوں کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا گیا تھا۔ تاہم، عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ ہدایات پبلک اراضی، سڑکوں، آبی ذخائر اور ریلوے کی زمین پر غیر قانونی تعمیرات کے لیے لاگو نہیں ہوں گی۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button