بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں میں سیاسی کشیدگی بڑھ گئی ہے، خاص طور پر اس وقت جب سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے بگڑتے حالات کے باعث عوامی لیگ نے حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کی تیاری شروع کر دی ہے۔ تین ماہ قبل شیخ حسینہ کی بنگلہ دیش سےبرطرفی کے بعد اب ان کی پارٹی اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر احتجاج کرنے جا رہی ہے۔ اس احتجاج کو روکنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے سیکوریٹی بڑھا دی ہے اور فوج کو سڑکوں پر تعینات کر دیا ہے۔
عوامی لیگ کے کارکنوں اور حامیوں پر اتوار کو پولیس کی جانب سے سختی کی گئی ہے اور کئی کارکنان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ڈھاکہ کے مختلف اہم علاقوں میں کی گئی ہیں جہاں عوامی لیگ کے حامی احتجاج کی تیاری کررہے ہیں۔ یہ احتجاج اس بات کے خلاف ہے کہ حکومت نے ان کے لیڈروں کو غلط طریقے سے پھنسایا اور اس کی طلباء ونگ پر پابندی عائد کردی ہے۔
ڈھاکہ میں فوج، پولیس اور اسکولوں کے طلبہ ان علاقوں میں بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تاکہ احتجاج کو روکا جا سکے۔ عوامی لیگ کے مخالفین نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کے باوجود، عوامی لیگ نےبدھ کو سڑکوں پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے یہ انتباہ دیا ہے کہ اگر عوامی لیگ نے احتجاج کیا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے سخت ایکشن لیں گے۔
اسی دوران بنگلہ دیش کی فوج اور پولیس نے ایک اور واقعہ میں امریکی صدر منتخب ڈونالڈ ٹرمپ کے حق میں جشن منانے کے الزام میں عوامی لیگ کے۱۰؍ کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان کارکنوں نے ٹرمپ کی جیت کے حوالے سے پرچم اور تصاویر کے ساتھ ریلی نکالنے کی کوشش کی تھی۔
حکومت نے عوامی لیگ کو اس احتجاج کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے اور انہیں سختی سے انتباہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے فاشسٹ رویے کا مظاہرہ نہ کریں۔