اسلامی دنیاافغانستانخبریں

افغانستان میں طالبان کی جانب سے سرِعام کوڑے مارنے کی سزا، اقوامِ متحدہ کی مذمت

افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں طالبان کی جانب سے ایک خاتون اور تین مردوں کو "ناجائز تعلقات” اور "گھر سے بھاگنے” جیسے جرائم کے الزام میں سرِعام کوڑے مارنے کی سزا دی گئی۔ طالبان حکومت کی سپریم کورٹ نے ان سزاؤں کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ ان افراد کو مقامی عدالت نے 39 کوڑے مارنے کی سزا سنائی تھی۔ اس سے قبل بھی طالبان کی اعلیٰ عدالت نے بتایا تھا کہ صوبہ پروان اور فریاب میں زنا اور ہم جنس پرستی جیسے جرائم کے الزام میں پانچ افراد کو سرعام 39 کوڑے مارے گئے تھے، جبکہ انہیں چھ ماہ سے ایک سال تک قید کی سزا بھی دی گئی تھی۔

طالبان حکومت کے 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اسلامی شریعت کے قوانین کی سخت تشریح پر مبنی فوجداری نظامِ انصاف نافذ کیا گیا ہے، جس کے تحت سرِعام کوڑے مارنے جیسی سزائیں دی جاتی ہیں۔ طالبان کے اس عمل کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے، خاص طور پر اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس پر شدید مذمت کی جاتی رہی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے افغانستان میں انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں طالبان حکومت کی جانب سے جسمانی سزاؤں کے استعمال کو "تشدد اور ناروا سلوک” قرار دیا ہے۔ بینیٹ نے 2024 کے آغاز سے ان سزاؤں میں خطرناک اضافے کی نشاندہی کی ہے اور کہا ہے کہ جنوری سے اگست کے دوران 46 خواتین سمیت 276 افغان شہریوں کو سرِعام کوڑے مارنے کی سزا دی گئی۔

رچرڈ بینیٹ نے طالبان کی سپریم کورٹ کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان میں سے 80 سرکاری اعلانات چوری اور زنا جیسے جرائم کے بارے میں تھے، مگر بعض افراد کو ہم جنس پرستی، بدفعلی، گھر سے بھاگنے اور کسی خاتون کے فرار میں مدد دینے جیسے الزامات پر بھی سزا دی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم جنس پرست اور ٹرانس جینڈر افراد کو خاص خطرات کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ طالبان نے جون میں ایک دن میں 15 خواتین سمیت 63 افراد کو سرِعام کوڑے مارے، جس میں ہر فرد کو 15 سے 39 کوڑے مارے گئے۔

عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے طالبان حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جسمانی سزاؤں کا سلسلہ روکے اور انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔ واضح رہے کہ اب تک کسی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر افغانستان کے حکمران کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ عالمی برادری کے خدشات میں خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سرِفہرست ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button