پاکستان میں انسانی حقوق کے وکلاء کی گرفتاری پر حقوقِ انسانی کارکنوں کا احتجاج
پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے انسانی حقوق کے وکلاء کی گرفتاری پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان وکلاء کو مبینہ طور پر ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے اور حکومتی امور میں مداخلت کے الزامات پر گرفتار کیا گیا ہے۔
حقوقِ انسانی ذرائع کے مطابق، ان گرفتاریوں کا مقصد ان وکلاء کی قانونی مسائل کے حل اور اپنے موکلوں کے حقوق کے دفاع کی کوششوں کو روکنا ہے۔ یہ وکلاء انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہیں اور عام شہریوں کے حقوق کے دفاع میں قانونی مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔
پاکستان میں قائم آزاد انسانی حقوق کمیشن نے ان گرفتاریوں کو ملک میں شہری اور انسانی حقوق کی سرگرمیوں پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی علامت قرار دیا ہے اور حکومت سے ان وکلاء کی فوری رہائی اور ان پر عائد الزامات کی منسوخی کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی ملک میں انسانی حقوق کے محافظین پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی عکاسی کرتی ہے، اور اس سے ملک میں آزادیِ اظہار و احتجاج پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، حکومت کا یہ اقدام ان وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر مزید پابندیاں عائد کرنے کی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جو بنیادی شہری حقوق کے دفاع کی خاطر آواز اٹھا رہے ہیں۔ اس صورتحال سے اظہارِ رائے اور احتجاج کے حق پر خطرات بڑھنے کا خدشہ ہے۔
موجودہ حالات کے پیش نظر، بین الاقوامی برادری سے پاکستان میں انسانی حقوق کے وکلاء اور کارکنوں کی حمایت کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو فوری طور پر شہری حقوق اور قانونی آزادیوں کا احترام کرتے ہوئے ان گرفتاریوں کو روکا جانا چاہیے تاکہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کو آزادانہ طور پر اپنی خدمات انجام دینے کا موقع مل سکے۔