خاص "سلام" کے مفہوم کا جواب بھی واجب ہے: آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی
مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ کا روزانہ کا علمی جلسہ حسب دستور منگل 11 ربیع الثانی 1446 ہجری کو منعقد ہوا۔ جس میں گذشتہ جلسات کی طرح حاضرین کے مختلف فقہی سوالات کے جوابات دیے گئے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے تحیت سلام کے سلسلہ میں فرمایا: خاص تحیت جسے سلام کہتے ہیں اور بعض روایات میں اسے تحیت سلام سے تعبیر کیا گیا ہے نہ صرف عربی زبان سے متعلق ہے بلکہ اس میں دوسری زبانیں بھی شامل ہیں اور اگر کوئی لفظ دوسری زبانوں میں کہا جائے کہ اس سے سلام کا مفہوم سمجھا جائے اور اس کے معنی کے مترادف ہو تو وہ لفظ درحقیقت وہی سلام ہے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ سلام ایک عرفی (روایتی) موضوع ہے جو لوگوں کے خیال پر موقوف ہے، فرمایا: عربی میں اس خاص تحیت کو "سلام علیکم” کہتے ہیں لیکن اگر کوئی دوسرا لفظ کسی دوسری زبان میں استعمال ہو جس کا یہی معنی ہو تو قاعدہ کا تقاضا یہ ہے کہ سلام کا جواب اسی زبان میں دینا واجب ہے۔
انہوں نے توجہ دلاتے ہوئے کہ دوسرے سلاموں کا جواب دینا واجب نہیں ہے، فرمایا: سلام میں جواب ان مستند روایات کے مطابق واجب ہے جو خاص اور خصوصی سلام کے بارے میں وارد ہوئے ہیں اور اس میں کوئی بھی زبان شامل ہو کیونکہ یہ قاعدہ ضروری ہے کہ لفظ تحیت سلام کا عام فہم صرف خصوصیات کے لحاظ سے مخصوص ہے۔ اگرچہ یہ لفظ عربی میں نہ ہو اور اس لفظ کے معنی کسی دوسری زبان میں ہوں۔