فرانس کے سیونہ ہائی اسکول میں 18 سالہ مسلمان لڑکی کی جانب سے حجاب ہٹانے کی اپنی ٹیچر کی درخواست پر احتجاج کے بعد سیکولر معاشروں میں امتیازی سلوک اور اسلامی تشخص کو درپیش چیلنجز کا معاملہ ایک بار پھر بحث کا مرکز بن گیا ہے۔
یہ واقعہ ان قانونی دباؤ کو ظاہر کرتا ہے جن کی مسلمانوں کو پابندی کرنا پڑتی ہے اور قوانین کی حمایت اور نظر ثانی کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
فرانس کے شہر تورکوان کے سوینہ ہائی اسکول میں پیش آنے والے واقعہ نے ایک بار پھر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا معاملہ خبروں کی زینت بنا دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق 18 سالہ لڑکی کے حجاب اتارنے سے انکار پر ٹیچر سے احتجاج کیا جس سے مسلمان طالبہ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ مسئلہ ایک بار پھر سیکولر معاشروں میں اسلامی تشخص کے چیلنجز کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ واقعہ ان دباؤ کو ظاہر کرتا ہے جن کا مسلمانوں کو مغربی معاشروں میں سامنا ہے۔
فرانس کا قانون جو خاص طور پر مذہبی حجاب پر پابندی لگاتا ہے، بہت سے ناقدین اسے مسلمانوں کی آزادی کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔
فرانس جہاں خود کو آزادی اور انسانی حقوق کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے، وہیں ان قوانین کے نفاذ سے اقلیتوں کے مذہبی حقوق کو بتدریج نظر انداز کیا جاتا ہے۔
اس واقعہ کے سیاسی رد عمل فرانسیسی معاشرے میں انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں کے درمیان گہری تقسیم کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ سیکولر انتہا پسند ہمیشہ مذہبی علامتوں کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔
فرانس میں بعض حکومتی عہدے داروں نے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے جمہوریت کے اقدار کو محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن اس طرز عمل سے مسلمانوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جو اس معاشرے کا حصہ ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ انہیں اپنے دین کی پیروی کرنے کا حق ہونا چاہیے کہ اپنے دینی عقائد کو فراموش نہ کریں۔
یہ واقعہ اس تلخ سچائی کی یاد دہانی ہے کہ مغرب میں مسلم کمیونٹیز کو مزید حمایت اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کے حقوق کے احترام اور پرامن بقائے باہمی کو مضبوط بنانے کے لئے موجودہ قوانین اور طریقوں پر نظر ثانی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔