اسلامی دنیاافغانستانخبریں

طالبان کے دور حکومت میں ہزارہ شیعوں کے خلاف بڑھتی ہوئی پابندیاں اور حملوں میں شدت

افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں شیعہ اور ہزارہ کو سخت ترین پابندیوں اور دباؤ کا سامنا ہے۔اطلاعات کے مطابق، پچھلے تین برسوں کے دوران طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد شیعہ اور ہزارہ برادری کو طالبان اور دیگر دہشتگرد گروہوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر اور منظم طریقے سے قتل کرنے کے لئے جبری جلا وطنی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔ ہزارہ شیعہ جو افغانستان کے چار بڑے آبادی والے گروہوں میں سے ایک ہیں۔ حالیہ برسوں میں پہلے سے کہیں زیادہ وہ حکمرانوں اور دہشت گرد گروہوں کی جانب سے منظم طریقے سے ظلم و ستم اور قتل و غارت کے شکار ہیں۔

تاریخی حوالوں کے مطابق افغانستان کے سابق بادشاہ عبدالرحمن خان کے دور میں ہزارہ آبادی کا 62 فیصد سے زیادہ قتل عام ہوا۔ اس کے بعد 100 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، اس ملک کے ہزارہ اور شیعوں کو ان کی نسلی اور دینی شناخت کی وجہ سے مختلف ادوار میں قتل و ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔

طالبان کی حکومت میں پہلی بار 1995 میں دائی کندی اور بلخ سمیت کئی شہروں میں ہزارہ شیعوں کا قتل عام کیا گیا۔ سن 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ہزارہ شیعوں کو ایک بار پھر ہر قسم کے دباؤ اور یہاں تک کہ نسل کشی کا نشانہ بنایا گیا۔ شدت پسند سنی گروہ داعش نے کابل اور افغانستان کے کئی صوبوں میں ہزارہ شیعوں کے خلاف درجنوں خونریز حملے کئے ہیں۔

شیعوں اور ہزارہ کے خلاف داعش گروپ کے خونریز حملوں کے علاوہ طالبان گروپ کی جانب سے سب سے زیادہ پابندیاں اور دباؤ اسی نسلی اور مذہبی گروہ پر لگایا گیا ہے۔ پچھلے تین برسوں کے دوران سینکڑوں ہزارہ شیعہ خاندان اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور کئی واقعات میں پشتون خانہ بدوشوں نے طالبان کی براہ راست حمایت سے ان کی زمینوں اور مکانات پر قبضہ کر لیا۔

طالبان گروپ گزشتہ تین برسوں کے دوران بشمول اس سال محرم کے مہینہ میں، انہوں نے افغانستان میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری پر سخت ترین پابندیاں عائد کیں۔اس کے علاوہ فقہ جعفری سے متعلق کتابیں جو پہلے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی تھی طالبان نے ہٹا دی اور لائبریریوں سے بھی کتابیں ہٹا دیں۔

اس حالیہ کاروائی میں گزشتہ ہفتہ طالبان نے صوبہ ہرات میں اسلام قلعہ بارڈر کراسنگ پر کربلا سے واپس آنے والے شیعہ زائرین کی مذہبی اشیاء اور دینی کتابوں کو ضبط کر لیا۔ ذرائع نے بتایا کہ قلعہ اسلام کی سرحد پر طالبان نے زائرین کے سامان کا مکمل معائنہ کیا اور دینی کتابیں اور دعاؤں کی کتابیں ضبط کر کے انہیں افغانستان میں داخل ہونے سے روک دیا۔

دوسری جانب صوبہ دائی کنڈی میں پیش آنے والے حالیہ واقعہ نے، جس میں 14 ہزارہ شیعہ افراد کو شہید کیا گیا، ایک بار پھر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تشویش اور رد عمل کی لہر کو ہوا دی ہے۔ شہداء کے اہل خانہ اور سول کارکنوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں ایسے خونیز واقعات کے رونما ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس گروہ کو ہزارہ برادری کی سلامتی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

اگرچہ شدت پسند سنی گروپ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، تاہم بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے خود کو طالبان کے ارکان کے طور پر پہچنوایا تھا۔ اس واقعہ کو عالمی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی شدید مذمت کی گئی۔

متعلقہ خبریں

Back to top button