الہول کیمپ کی تفویص سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس میں عراقی حکومت کی شرکت
عراق شام میں اس ملک کی سرحدوں کے قریب واقع الہول کیمپ کو ٹائم بم قرار دیتا ہے اور اس کیمپ کے پناہ گزینوں کی اپنے ملکوں میں واپسی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ عراقی حکومت کی جانب سے شام کے الہول کیمپ میں عراقی پناہ گزینوں کی واپسی کے لئے کوششیں جاری ہیں۔
تقریبا 18 ہزار عراقی اب بھی اس کیمپ میں موجود ہیں۔ اس سلسلہ میں عراق رواں ماہ نیویارک میں ہونے والی سلامتی کونسل کی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرے گا اور اس کانفرنس میں دنیا کے ممالک سے اپنے شہریوں کو الہول کیمپ سے نکالنے کی درخواست کرے گا۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔ عراق کوشش کر رہا ہے کہ الہول کیمپ میں مقیم عراقی پناہ گزینوں کو جو اکثر دہشت گرد گروہوں کے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، کو ملک میں واپس بھیجے اور انہیں با اختیار بنانے کے بعد معاشرے میں ضم کرے۔
عراقی حکام نے اس کیمپ اور اس کے مکینوں کے بارے میں بارہا خبردار کیا اور اسے ٹائم بم قرار دیا ہے اور جن ممالک کے شہری اس کیمپ میں ہیں ان سے کہا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو اپنے ملکوں کو واپس بلائیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس میدان میں صرف عراق ہی پیش قدم ہے۔
اس سلسلہ میں عراقی وزارت برائے مہاجرت و تارکین وطن امور کے ترجمان علی عباس نے بتایا کہ عراقی خاندانوں کا ایک نیا گروپ جن کی تعداد 150 سے 160 گھرانوں تک پہنچتی ہے جلد ہی عراق واپس آ جائے گا اور ان کی واپسی کی تیاریاں جاری ہیں۔
بغداد میں نامہ نگاروں کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا: تقریبا 18000 عراقی اب بھی الہول کیمپ میں موجود ہیں۔ جس پر سیرین ڈیموکریٹک فورسز برسوں سے کنٹرول اور انتظام کر رہی ہیں۔عراق نے ہمیشہ اس کیمپ کے مشن کے تعین کے لئے بین الاقوامی تعاون پر زور دیا ہے کیونکہ اس میں مختلف ممالک کے تقریبا 20 ہزار بچے اور نو عمر موجود ہیں اور وہ مستقبل میں خطے اور دنیا کی سلامتی کے لئے خطرناک قوتیں ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس کیمپ میں مختلف قومیتوں کے شہریوں کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ عالمی اداروں اور دنیا کے ممالک اس مسئلہ کے حل کے لئے تعاون کریں۔ اس کیپ میں بہت زیادہ قتل اور جرائم ہوتے ہیں اور ان جرائم کے پیچھے شدت پسند سنی دہشت گرد گروہ داعش کا ہاتھ ہے جو عام طور پر یا تو گولیاں چلا کر یا سرد ہتھیاروں کے استعمال سے کئے جاتے ہیں۔
الہول کیمپ میں مختلف ممالک کے 62000 افراد موجود ہیں جن میں شدت پسند سنی گروپ داعش کے 10000 بھی شامل ہیں۔ جو شام کے شمال مشرق میں اور عراقی سرحدوں کے قریب واقع ہے۔ جس میں نہ صرف عام پناہ گزین بلکہ شدت پسند دہشت گرد گروپ داعش کے سابق جنگجو اور ان کے اہل خانہ بھی رہتے ہیں، جبکہ کیمپ کے انتظامیہ کے پاس اپنے رہائشیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تربیت یافتہ انتظامی عملے کی کمی ہے۔
داعش اپنے عناصر کے ذریعہ اس کیمپ کے مکینوں کے ذہنوں میں اپنا نظریہ قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ الہول کیمپ میں بچوں کی ایک نئی نسل پہنچی ہے جنہیں عراق اور شام میں داعش کے زیر کنٹرول علاقوں سے اپنی ماؤں اور رشتہ داروں کے ساتھ اس علاقے میں منتقل کیا گیا تھا۔
الہول کیمپ میں بننے والی یہ نسل داعش کی پہلی نسل سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ نفرت سے بھرے ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے اور اپنے باپ دادا کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ یہ بچے جب کسی صحافی یا کیمپ کے باہر کسی کو دیکھتے ہیں تو ان پر پتھر پھینکتے ہیں اور "ہم تمہارا سر کاٹ دیں گے” کا نعرے لگاتے ہیں۔
عراق نے عرب، یورپی اور ایشیائی ممالک سے کہا کہ وہ اس کیمپ سے اپنے شہریوں کی واپسی کریں اور اس سلسلے میں برطانیہ، فرانس، سویڈن، جرمنی، روس، چیچنیا، پاکستان اور بعض عرب ممالک کو مدعو کیا ہے کیونکہ کیمپ میں ان کے قیام کا مطلب مستقبل میں شدت پسندی اور عراق کے لئے خطرہ ہے۔ کئی ممالک نے اقوام متحدہ کے تعاون سے اپنے شہریوں کو اس کیمپ سے نکال دیا ہے اور عراق اس کیمپ کو ختم کرنے کے لئے بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ مہینوں میں عراق کے قومی سلامتی کے مشیر قاسم الاعرجی نے بغداد میں غیر ملکی اور عرب ممالک کے سفیروں کے ساتھ سلسلہ وار ملاقاتیں کی جن میں انہوں نے ان سے کہا کہ وہ اپنے شہریوں کو اس کیمپ کے اندر سے واپس لے جائیں۔
اسی سلسلہ سے عراق کی قومی سلامتی کے اسٹریٹیجک امور کے مشیر سید الجیاشی نے وضاحت کی کہ عراق الہول کیمپ کے حوالے سے نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرے گا تاکہ ان ممالک کو حکومت اور وزارت خارجہ کی جانب سے تفویض کے تعین کی کوششوں کے حوالے سے اپنا پیغام پہنچایا جا سکے تاکہ وہ شدت پسند سنی دہشت گرد گروہ داعش سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کو جلد از جلد اس کیمپ سے نکال کر اس کیس کو جلد از جلد ختم کر سکیں۔