عید غدیر! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی رسالت کے اتمام اور دشمنوں کے مایوس ہونے کا دن
واقعہ غدیر تاریخ اسلام کا ایک اہم ترین واقعہ ہے کہ 18 ذی الحجہ سن 10 ہجری کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے امام علی علیہ السلام کا اپنے بلا فصل ولی و جانشین کے عنوان سے تعارف کرایا، وہاں حاضرین میں اصحاب کبار بھی موجود تھے جنہوں نے امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی بیعت کی۔
غدیر خم کا واقعہ صرف ایک مخصوص تاریخی واقعہ نہیں ہے جو اپنے زمانے میں رونما ہوا بلکہ یہ پوری تاریخ میں تمام انسانوں کی تقدیر کا تعین ہے۔
شیعہ احادیث میں اس دن کے لئے مختلف تعبیریں جیسے عید اللہ اکبر یعنی اللہ کی عظیم ترین عید، عید اہل بیت محمد، اشرف الاعیاد یعنی شریف ترین عید بیان ہوئی ہے۔
پورا عالم تشیع اس دن عید مناتا ہے اور مختلف تقاریب کا انعقاد کرتا ہے، خاص طور پر حالیہ صدیوں میں یہ جشن زیادہ شاندار طریقے سے منایا جاتا رہا ہے اور اسے مذہب تشیع کی اہم علامتوں میں سے ایک اہم علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔
سورہ مبارکہ مائدہ کی آیت 67 جو آیت تبلیغ کے نام سے مشہور ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو خدا کی جانب سے ذمہ داری ملی کہ جو حکم خدا آپ تک پہنچا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دیں ورنہ گویا آپ نے رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔
یہ تاریخی واقعہ اس وقت پیش آیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اپنے آخری حج جو حجۃ الوداع، حجۃ البلاغ اور حجۃ الاسلام کے نام سے مشہور ہے، سے واپس مدینہ آ رہے تھے تو غدیر خم میں آپ کو یہ حکم پہنچا اس وقت کچھ لوگ اس جگہ سے آگے بڑھ چکے تھے اور کچھ لوگ ابھی وہاں نہیں پہنچے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے حکم دیا کہ جو لوگ آگے بڑھ گئے ہیں وہ واپس آئیں اور جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں ان کا انتظار کیا جائے۔
روایات کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے تمام لوگوں کو غدیر خم میں جمع کیا جن کی تعداد تاریخ کے مطابق 90 ہزار سے ایک لاکھ 24 ہزار کے درمیان تھی اور امام علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کیا تاکہ ہر کوئی آپ کو دیکھ سکے اور فرمایا: اے لوگو! کیا میں تم پر تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا ہوں؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں! یا رسول اللہ۔ تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: خدا میرا ولی ہے، میں مومنین کا ولی ہوں اور مومنین پر خود ان سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کے مولا ہیں۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے تین بار اس جملے کی تکرار کی: خدایا! تو اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے، تو اس سے دشمنی کر جو علی سے دشمنی کرے، تو اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرے، تو اسے چھوڑ دے جو علی کو چھوڑ دے۔
اس کے بعد لوگوں کو مخاطب کر کے حکم دیا: یہاں حاضر لوگ غائبین تک یہ پیغام پہنچا دیں۔
واقعہ غدیر کے بعد سورہ مائدہ کی تیسری آیت جو آیت اکمال کے نام سے مشہور ہے نازل ہوئی اور اس دن کو اکمال دین اور اتمام نعمت کا دن قرار دیا۔
جو بات مسلم اور یقینی ہے وہ یہ ہے کہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی جانشینی کا اعلان عام صرف غدیر خم میں نہیں ہوا تھا بلکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم سے پہلے کئی بار امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی جانشینی کا ذکر کیا تھا۔
مشہور روایت کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ کہ جسے یوم الدار یا یوم الانذار کہتے ہیں، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے تین سال بعد کہ اس وقت امیر المومنین علی علیہ السلام کی عمر مبارک 15 سال تھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی جانشینی کا اعلان کیا سورہ شعراء کی آیت نمبر 214 سے 216 تک کی شان نزول اسی سلسلے میں ہے۔
اسی طرح حدیث منزلت ایک ایسی روایت ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے مقام و مرتبہ کا حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی نسبت کے ذریعہ تعارف کراتی ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور حدیث ہے جسے شیعہ اور اہل سنت علماء نے قبول کیا ہے۔
یہ حدیث متواتر ہے جو امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے جانشین پیغمبر اور اصحاب سے برتر ہونے پر دلیل ہے۔
مشہور روایات کے مطابق سن 9 ہجری میں غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے حدیث منزلت بیان فرمائی۔ اسی طرح مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے امیر المومنین امام علی علیہ السلام سے عقد اخوت فرمایا، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر، سن 7 ہجری میں جنگ خیبر کے موقع پر، سد الابواب یعنی مسجد نبوی میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین علیہ السلام کے گھر کے دروازوں کے علاوہ سارے دروازے بند کرنے کے موقع پر،اور آخر میں غدیر خم میں
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا امیر المومنین علی علیہ السلام کی بلا فصل جانشینی کو بیان کیا اور اس پر تاکید فرمائی تھی۔
واضح رہے کہ واقعہ غدیر تمام شیعہ کتب اور اہل سنت کی معروف ترین کتب میں متواتر طریقے سے نقل ہوا ہے اور اسے علماء، مولفین اور شعرا نے مختلف انداز سے بیان کیا ہے کہ جن میں سے ایک اہم ترین اور معروف ترین کتاب علامہ عبدالحسین امینی کی کتاب الغدیر ہے۔