15 ذی الحجہ ولادت با سعادت امام علی نقی علیہ السلام كا دن
حضرت ابوالحسن امام علی نقی علیہ السلام ہمارے دسویں امام ہیں ، آپؑ 15 ذی الحجہ (دوسری روایت کے مطابق 5 رجب) سن 212 ہجری کو مدینہ منورہ کے قریب صریا نامی قریہ میں پیدا ہوئے اور 3؍ رجب المرجب 254 ہجری کو سامرا میں معتز عباسی کے زہر دغا سے شہید ہوئے۔
آپؑ کے والد ماجد ہمارے نویں امام حضرت جواد الائمہ امام محمد تقی علیہ السلام ہیں اور والدہ ماجدہ جناب سمانہ سلام اللہ علیہا تھیں ۔
ہمارے دسویں امام ؑ کا نام نامی اسم گرامی علیؑ، کنیت ابوالحسن ثالث اور القاب نقی، ہادی، طیب ، امین ، ناصح اور مرتضیٰ ہے۔ ماہ ذی القعدہ کے آخری دن سن 220 ہجری کو جب آپؑ کے والد ماجد حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی بغداد میں ام الفضل کے ذریعہ معتصم عباسی کے زہر دغا سے شہادت ہو ئی تو منصب امامت کی ذمہ داری آپؑ پر آئی ۔ اس وقت آپ ؑ کی عمر مبارک محض سات سے آٹھ برس تھی۔ آپ ؑ کے دورہ امامت میں چھ عباسی حکمرانوں نے حکومت کی ۔ معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز نے یکے بعد دیگرے تخت حکومت پر بیٹھے۔ اگرچہ سب کے سب ظالم و جابر اور سنگ دل تھے لیکن متوکل ان سب میں سب سے زیادہ ظالم وجابر اور دشمن اہلبیتؑ تھا۔ دوسرے عباسی حکمرانوں کے بہ نسبت متوکل کے دور حکومت میں شیعہ زیادہ سختی میں تھے۔ حکومت کی جانب سے ملنے والی تمام سہولتیں شیعوں کے لئے بند کر دی گئیں، اسے اگر معلوم ہوتا کہ فلاں شخص شیعہ ہے تو وہ اسے قتل کرا دیتا اور مال کو ضبط کر لیتا ، یہاں تک کہ متوکل نے مصر کے گورنر کو حکم دیا کہ اگر ایک شیعہ اور غیر شیعہ میں اختلاف ہو تو غیر شیعہ کی ہی بات سنی جائے اور اسی کے حق میں فیصلہ دیا جائے۔ متوکل ملعون امیرالمومنین علیہ السلام کا اس قدر شدید مخالف اور دشمن تھا کہ اس کے دربار میں درباری مسخرے امیرالمومنین علیہ السلام کی نقل اتارتے اور مذاق اڑاتے تو وہ انہیں انعامات سے نوازتا ، اسی طرح اس ملعون متوکل نے مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک پرحملہ کرتے ہوئے وہاں موجود تمام عمارتوں کو منہدم کرا دیا اور زیارت پر پابندی عائد کر دی۔ روایت میں ہے کہ ایسے پر آٓشوب دور میں جب امام علی نقی علیہ السلام بیمار ہوئے تو آپؑ نے ایک شخص کو زاد راہ دی اور فرمایا: کربلا جاؤ ، زیارت کرو اور وہاں میری صحت یابی کی دعا کرو۔ تا کہ لوگ زیارت امام مظلوم ؑ سے کبھی غافل نہ ہوسکیں ۔
امام علی نقی علیہ السلام کا دور امامت 34 برس رہا ، 220 ہجری سے 233 ہجری اور بعض دیگر روایات کے مطابق 243 ہجری تک آپ ؑ مدینہ منورہ میں رہے اور باقی عمر سامرہ میں بسر کی۔ متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ منورہ سے بلا کر سامرہ میں فوجی چھاؤنی میں رکھا تا کہ نزدیک سے مکمل آگاہی رہے۔ سامرہ میں لوگوں سے ملاقات پر پابندی تھی کہ کوئی آپؑ سے ملاقات نہ کر سکے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب سختیاں اس قدر شدید ہوں تو کار ہدایت کتنا مشکل ہو گا۔ دوسری جانب طرح طرح کے فرقے اور نظریات بھی وجود میں آ رہے تھے خصوصاً لوگوں کو اہلبیت اطہار علیہم السلام سے دور رکھنے کی ہر ممکن کی کوشش کی جا رہی تھی اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے عظمتوں کو کم کرنے کی ناکام کوششیں جاری تھیں ۔ امام علی نقی علیہ السلام نے ایسے عالم میں زیارت جامعہ کبیرہ تعلیم کر کے رہتی تک لوگوں کو ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی فضیلتوں اور عظمتوں سے واقف کرایا ۔ نیز جب آپؑ مدینہ سے سامرہ تشریف لا رہے تھے تو راستے میں نجف اشرف میں اپنے جد امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کے لئے بھی تشریف لے گئے۔ آپؑ نے جس دن امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کی وہ روز غدیر 18 ذی الحجہ تھا۔ یہ زیارت غدیر آپؑ ہی کی تعلیم کردہ زیارت ہے جسمیں آپؑ نے امیرامومنین علیہ السلام کی 150 فضیلتوں کو بیان کیا ہے۔
اس پر آشوب ماحول میں جب لوگوں کے لئے حجت خدا سے ملاقات ممکن نہیں تھی تو آپؑ نے مختلف علاقوں میں اپنے نمایندے اور وکیل معین کئے اور مومنین کو حکم دیا کہ شرعی رقومات ان کو دیں اور اپنے دینی سوالات بھی انہیں سے پوچھیں کیوں کہ وہ جو بھی بتائیں گے وہ میری ہی بات ہوگی۔ اس طرح نمایندگی اور وکالت جہاں وقت کی ضرورت تھی وہیں شیعوں کی عصر غیبت میں حصول رہنمائی کی تربیت بھی تھی کہ جب بارہویں امام ؑ غیبت اختیار کر لیں تو امت اپنے کو بغیر سرپرست کے نہ سمجھے بلکہ فقہاء اور مراجع کرام کی جانب رجوع کرے۔