
حمص میں امام علی علیہ السلام کی مسجد میں خوفناک دھماکے کے محض دو روز بعد، شام کے لاکھوں علوی، اپنے روحانی پیشوا شیخ غزال غزال کی اپیل پر، ملک کے ساحلی اور وسطی علاقوں میں سڑکوں پر امنڈ آئے۔
یہ احتجاجی مظاہرے جنہیں "پُرامن انسانی سیلاب” کا نام دیا گیا، ایسے نازک وقت میں منعقد ہوئے جب سیکیورٹی دستے بھاری تعداد میں موجود تھے اور براہِ راست فائرنگ کے ذریعے ہجوم کو قابو کرنے کی کوشش کی گی، جس کے نتیجے میں کم از کم ایک سیکیورٹی اہلکار اور دو مظاہرین جانِ بحق ہوئے۔
حمص میں امام علی علیہ السلام کی مسجد میں حالیہ خوفناک دھماکے کے بعد، جس میں 8 افراد شہید اور 20 سے زائد زخمی ہوئے، شام میں ہزاروں علوی ملک کے ساحلی اور وسطی صوبوں میں جمع ہو گئے۔

خبر رساں ادارہ اخبارِ شیعہ کی الاخبار سے ماخوذ رپورٹ کے مطابق، یہ پُرامن احتجاجی مظاہرے "حقِ آزادی و خودمختاری” کے مطالبے اور علویوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف منعقد ہوئے، اور "پُرامن انسانی سیلاب” کے عنوان سے شورائے اعلیٰ اسلامیہ علویان کے صدر، شیخ غزال غزال،کی جانب سے بلائے گئے تھے۔
مڈل ایسٹ نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ساحلی شہروں لاذقیہ اور طرطوس میں غیرمعمولی سیکیورٹی الرٹ نافذ کیا گیا اور سرکاری فوجی دستوں نے گھیرا بندی اور بھاری نفری کے ذریعے بڑے پیمانے پر تصادم سے بچنے کی تگ و دو کی۔
العربیہ فارسی کی رپورٹ کے مطابق، سابقہ حکومت کے بقایا عناصر کی جانب سے سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے گئے جس کے سبب ان میں سے متعدد زخمی ہو گئے۔
اسی طرح لاذقیہ میں مظاہرین پر براہِ راست گولہ باری کے دوران، سیکیورٹی اہلکاروں نے دو مظاہرین کو قتل اور درجنوں دیگر کو مجروح کر دیا۔
لاذقیہ میں، غزال غزال کی حمایت میں جمع ہونے والوں اور حکومتی حامیوں کے درمیان کشیدگی نے سیکیورٹی دستوں کی بھاری تعیناتی کو ناگزیر بنا دیا۔
مقامی ذرائع نے حمص میں کئی مظاہرین کی گرفتاری کی بھی تصدیق کی۔
شامی انسانی حقوق کی نگران تنظیم نے بھی اس امر کی توثیق کی کہ سیکیورٹی فورسز نے جبر و تشدد کا سہارا لیتے ہوئے علویوں کے اجتماعات کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔
ماہرین کا قیاس ہے کہ یہ واقعات شام کے ساحلی خطوں میں گہرے سماجی اور سیاسی بحران کی عکاسی کرتے ہیں اور خبردار کرتے ہیں کہ مذہبی شناخت کی بنیاد پر تشدد اور خونریزی جاری رہ سکتی ہے۔
الاخبار کی رپورٹ کے مطابق، علوی قائدین نے تاکید کی کہ ان کے پُرامن احتجاجی مظاہرے محض ظلم و ستم اور ناانصافی کا ردِ عمل ہیں اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ عام شہریوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرے۔
یہ احتجاجی تحریک، مشرقِ وسطیٰ کے متلاطم خطے میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے حصول کے لیے شہری جدوجہد کی نمایاں مثال سمجھی جاتی ہے اور حکومتی جوابدہی اور شہری حقوق کے بین الاقوامی تحفظ کی اشد ضرورت کا واضح پیغام دیتی ہے۔




