
مسلمانوں کے لئے سنگین خطرہ اور مغربی افریقہ میں مسلح گروہوں کا بڑھتا ہوا اثر
نائجیریا کے شمال مشرقی علاقوں میں داعش اور بوکوحرام جیسے انتہاپسند سنی دہشت گرد گروہ خونریز حملوں، اغوا اور بھتہ خوری کے ذریعہ مسلمانوں کی زندگیوں کو شدید خطرات سے دوچار کر رہے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
نائجیریا کے شمال مشرق میں انتہاپسند سنی دہشت گرد گروہ، جن میں داعش – مغربی افریقہ ولایت اور بوکوحرام شامل ہیں، وسیع پیمانے پر حملوں، اغوا اور جبری وصولیوں کے ذریعہ سب سے زیادہ متاثرین انہی علاقوں کے مسلمانوں کو بنا رہے ہیں۔
اخبار العربی الجدید کی رپورٹ کے مطابق، یہ گروہ مسجد اور چرچ یا مذہب کی بنیاد پر شہریوں میں کوئی امتیاز نہیں کرتے اور ان کی زیادہ تر سرگرمیاں لوٹ مار اور بھتہ خوری پر مرکوز ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشیئل (Truth Social) پر ایک بیان میں غیر فوجی افراد، خصوصاً عیسائیوں کے قتل عام کے بارے میں خبردار کیا ہے.
تاہم رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی اٹھانا پڑ رہا ہے۔

سال 2015 میں، بوکوحرام کے انتہاپسند سنی رہنما ابو بکر شیکاو نے داعش سے بیعت کا اعلان کیا اور اس کے نتیجے میں “مغربی افریقہ ولایت” کے نام سے ایک نئی شاخ قائم کی۔
بعد ازاں ابو بکر شیکاو کے داعش سے علیحدہ ہونے کے بعد، بوکوحرام اور داعش کی شاخ کے درمیان نائجیریا کے شمال مشرق میں اثر و رسوخ کے لئے شدید جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
داعش کے انتہاپسند سنی گروہ نے اپنی موجودگی کو وسعت دی اور فوجی اڈوں اور اسکولوں پر حملوں کے ذریعہ ریاست بورنو کے بعض علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔
العربی الجدید کے مطابق، مارچ 2024 میں داعش کے انتہاپسند سنی گروہ نے تقریباً 300 صوفی مسلمان طلبہ کو اغوا کیا، جن میں سے نائجیریا کی فوج نے دو ماہ بعد 350 افراد کو آزاد کرایا، جن میں 200 بچے بھی شامل تھے۔
داعش کے انتہاپسند سنی گروہوں کی نئی حکمتِ عملیوں میں خواتین خودکش حملہ آوروں کا استعمال بھی شامل ہو چکا ہے۔
جولائی 2024 میں گوزا کے علاقے میں تین خودکش حملے کئے گئے، جن میں 38 افراد ہلاک ہوئے۔
مغربی افریقہ میں داعش کے انتہاپسند سنی گروہ کی توسیعی کوششوں نے کیمرون، بینن، نائجر اور چاڈ جیسے ہمسایہ ممالک کو بھی متاثر کیا ہے، اور بعض علاقوں میں ان کا القاعدہ سے وابستہ انتہاپسند سنی گروہوں اور “انصار الاسلام” کے ساتھ براہِ راست تصادم بھی ہوا ہے۔
نائجیریا کی حکومت نے حالیہ برسوں میں قومی مفاہمت کے ماڈلز اور مسلح افراد کی بحالی کے پروگراموں کے ذریعہ ان گروہوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم معاشی، سماجی اور قبائلی مسائل ان منصوبوں کے مؤثر نفاذ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔




