5 رجب المرجب؛ یومِ شہادت ابنِ سِکِّیت رحمۃ اللہ علیہ

علم کی حرمت پر قربان ہونے والی زبان
اسلامی تہذیب کی تاریخ ایسے درخشاں اہلِ علم سے مزین ہے جنہوں نے علم کو محض درس و تدریس تک محدود نہ رکھا بلکہ حق گوئی، دیانت اور اہلِ بیت علیہم السلام سے وفاداری کو اپنی علمی زندگی کا جوہر بنایا۔ انہی عظیم شخصیات میں استاد ابو یوسف یعقوب بن اسحاق ابنِ سِکِّیت رحمۃ اللہ علیہ کا نام انتہائی محترم ہے، جن کی شہادت علم، حق اور ولایتِ اہلِ بیت علیہم السلام سے بے مثال وابستگی کی روشن مثال ہے۔
ابنِ سِکِّیت رحمۃ اللہ علیہ عربی زبان و ادب کے نامور عالم، ماہرِ لغت اور جلیل القدر نحوی تھے۔ عباسی دور میں انہیں زبانِ عربی کا سب سے مستند عالم شمار کیا جاتا تھا۔ ان کی شہرۂ آفاق تصنیف "اصلاح المنطق” آج بھی عربی لغت و ادب کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے زبان کو محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ فکری و تہذیبی شناخت کا آئینہ قرار دیا۔
ان کا علمی کمال اس حد تک مسلم تھا کہ عباسی خلیفہ متوکل نے انہیں اپنے بیٹوں کا استاد مقرر کیا، حالانکہ ابنِ سِکِّیت رحمۃ اللہ علیہ کا جھکاؤ کھلے طور پر اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی طرف تھا۔
ابنِ سِکِّیت رحمۃ اللہ علیہ امام علی نقی علیہ السلام کے خاص اصحاب میں شمار ہوتے تھے اور اہلِ بیت علیہم السلام کی محبت کو ایمان کا لازمی جزء سمجھتے تھے۔ انہوں نے علم کو دربار کی خوشنودی کے لیے استعمال کرنے کے بجائے حق کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ یہی جرأتِ حق گوئی بالآخر ان کی شہادت کا سبب بنی۔
روایات کے مطابق ایک دن خلیفہ متوکل نے ابنِ سِکِّیت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا: "میرے بیٹے افضل ہیں یا حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام؟” یہ سوال محض علمی نہیں بلکہ عقیدے اور حق و باطل کا امتحان تھا۔ ابنِ سِکِّیت رحمۃ اللہ علیہ نے بلا تردد جواب دیا: "اللہ کی قسم! حضرت علی علیہ السلام کا غلام قنبر بھی تمہارے بیٹوں سے بہتر ہے۔”
یہ جواب متوکل کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ اس نے طیش میں آ کر حکم دیا کہ ابنِ سِکِّیت رحمۃ اللہ علیہ کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے، اور اسی ظلم کے نتیجے میں یہ عظیم عالم 5 رجب سن 244 ہجری کو شہید کر دیے گئے۔
ابنِ سِکِّیت رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ علم اگر حق کے ساتھ نہ ہو تو محض ہنر بن کر رہ جاتا ہے اور اگر حق کے ساتھ ہو تو وہ جان کی قربانی بھی مانگ سکتا ہے۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ عالم کا اصل وقار دربار کے قریب ہونے میں نہیں بلکہ حق پر ثابت قدم رہنے میں ہے۔
آج کے دور میں، جب علم کو مفادات اور طاقت کے تابع کر دیا گیا ہے، ابنِ سِکِّیت رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت اہلِ علم کے لیے آئینہ ہے۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ قلم کی حرمت، زبان کی سچائی اور اہلِ حق سے وفاداری ہر قیمت پر مقدم ہونی چاہیے۔
استاد ابنِ سِکِّیت رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت تاریخِ اسلام کا وہ باب ہے جس میں علم نے ظلم کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔ وہ صرف ایک نحوی یا لغوی نہیں تھے، بلکہ ضمیرِ علم تھے، جو دار و رسن کے سائے میں بھی حق بولتا رہا۔
سلام ہو اس عالمِ باعمل پر جس نے اپنی زبان کو حق کی خاطر قربان کر دیا، اور علم کو شہادت کا تاج پہنایا۔




