
حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر یورپی شہر روشنیوں اور مذہبی جلوؤں سے جگمگا اٹھتے ہیں۔
لیکن ان ظاہری خوبصورتیوں کے پیچھے ایک سماجی حقیقت بھی جاری و ساری ہے جو کم ہی نظر آتی ہے: یورپ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کا روزمرہ پُرامن بقائے باہمی، ایسے براعظم میں جہاں خاص طور پر گزشتہ دہائیوں میں مذہبی تنوع نمایاں طور پر بڑھا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک الٰہی نبی اور پاکیزگی، رحمت اور اخلاق کی علامت کے طور پر ماننا، یورپ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان بقائے باہمی کی ایک اہم بنیاد ہے۔
شیعہ خبر رساں ایجنسی نے رائٹرز کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ یورپ میں مقیم بہت سے مسلمان حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کو ایک قابلِ قدر اور قابلِ احترام دن سمجھتے ہیں۔
وسیع پیمانے پر ہونے والی ہجرت کے باعث یورپ ایک یک مذہبی براعظم سے ایک کثیرالمذاہب معاشرے میں تبدیل ہو چکا ہے۔
فرانس، جرمنی، انگلینڈ، اٹلی، اسپین اور بیلجیم جیسے ممالک میں مسلمان سماجی ڈھانچے کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، تاریخی مساجد اور گرجا گھروں کا ایک دوسرے کے ساتھ موجود ہونا، جسمانی قربت کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ ثقافتی اور سماجی بقائے باہمی کو بھی فروغ دے رہا ہے۔
یورپ کے بہت سے شہروں میں مسلمان اور عیسائی مشترکہ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
جن میں پناہ گزینوں کی مدد سے لے کر فلاحی پروگراموں تک شامل ہیں۔
بین الاقوامی مرکز برائے بین الادیان مکالمہ KAICIID نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بین الادیان مکالمہ اور مشترکہ تقریبات میں شرکت، تنازعات میں کمی اور باہمی اعتماد کے قیام کا سبب بنتی ہے۔
جرمنی میں اسلامی ادارے ہر سال حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ادیان کے مشترکہ اخلاقی اصولوں پر زور دیتے ہیں۔
انگلینڈ میں یہ تعاملات عوامی ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں۔
ان مثبت تعاملات کے باوجود، اسلاموفوبیا اور امتیازی پالیسیوں جیسے چیلنجز کبھی کبھار پُرامن بقائے باہمی کے ماحول کو متاثر کرتے ہیں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، اس کے باوجود معتدل مسلمانوں اور عیسائیوں کے مشترکہ ردِعمل—جیسے چرچ کے رہنماؤں کی جانب سے مسلمانوں کے حقوق کی حمایت اور اسلامی اداروں کی طرف سے عیسائیوں کے خلاف حملوں کی مذمت—بین الادیان مکالمہ کی پختگی کو ظاہر کرتی ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت صرف ایک دین کا تہوار نہیں؛ بلکہ یہ الٰہی ادیان کے مشترکہ پیغام—امن، محبت اور انسانی وقار—کی یاد دہانی ہے۔
اور یورپ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کا پُرامن بقائے باہمی دنیا بھر کی کثیرالمذاہب معاشروں کے لیے ایک متاثرکن نمونہ شمار ہوتا ہے۔



