یورپ

یورپ اور امریکہ میں قرآنِ کریم کی منظم بے حرمتی کی لہر اور مغرب میں مسلمانوں کی سلامتی کو خطرہ؛ قرآن پر گولیاں چلانا اسلام دشمنی کا تازہ ترین طریقہ

یورپ اور امریکہ میں قرآنِ کریم کی منظم بے حرمتی کی لہر اور مغرب میں مسلمانوں کی سلامتی کو خطرہ؛ قرآن پر گولیاں چلانا اسلام دشمنی کا تازہ ترین طریقہ

اسٹاک ہوم میں قرآنِ کریم کی حالیہ بے حرمتی اور یورپ و امریکہ میں اسی نوعیت کے دیگر اقدامات نے ایک بار پھر منظم اسلام دشمنی اور مسلمانوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کو بے نقاب کر دیا ہے۔

یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ انتہاپسند دائیں بازو کے حلقے اور ان کے اسلام مخالف اتحادی مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں قرآنِ کریم کی بے حرمتی کا واقعہ، یورپ کے دیگر ممالک اور امریکہ میں پیش آنے والے اسی طرح کے واقعات کے ساتھ مل کر منظم اسلام دشمنی کی ایک تلخ حقیقت کو آشکار کرتا ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق، اس تازہ واقعہ میں قرآنِ کریم کا ایک نسخہ اسٹاک ہوم کی عظیم مسجد کے داخلی دروازے کی ریلنگ سے زنجیر کے ذریعہ باندھا گیا تھا، جس پر گولیوں کے چھ نشانات موجود تھے۔ اس کے ساتھ عربی اور سوئیڈش زبان میں ایک دھمکی آمیز پیغام بھی نصب تھا جس کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور اسلامی برادری میں خوف پھیلانا تھا۔

اسٹاک ہوم کی عظیم مسجد کے ذمہ داران نے اس اقدام کو مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور ذاتی سلامتی پر براہِ راست حملہ قرار دیا۔ مسجد سے وابستہ مرکز کے مدیر محمود الحلفی نے زور دے کر کہا کہ یہ حملہ اسلام دشمن اشتعال انگیزی، نسل پرستی اور سماجی تقسیم کے ماحول میں ہوا ہے، لہٰذا اسے کسی فردِ واحد کا عمل نہیں سمجھا جا سکتا۔

سوئیڈش پولیس نے اس واقعہ کو ’’نفرت پر مبنی جرم‘‘ کے طور پر درج کیا ہے، تاہم گزشتہ برسوں کے تجربات نے قانونی کارروائیوں کی مؤثریت پر شکوک پیدا کئے ہیں۔ مسلمان برادری بارہا خبردار کر چکی ہے کہ ساختی رواداری اور نرمی ان کی سلامتی کو کمزور کرتی ہے۔

ترک خبر رساں ایجنسی اناطولیہ نے سوئیڈن میں قرآنِ کریم کی بے حرمتی پر وسیع ردِعمل کو اجاگر کرتے ہوئے اسے اسٹاک ہوم کی ساکھ کے لئے نقصان دہ قرار دیا ہے۔

یہ اقدامات اُن توہین آمیز سلسلوں کا تسلسل ہیں جن میں انتہاپسند عناصر آزادیِ اظہار کے پردے اور غیر رسمی حمایت کے سائے میں قرآنِ کریم کو جلانے یا اس کی توہین کرتے رہے ہیں، جس کے باعث سوئیڈن یورپ میں اسلاموفوبیا کے بڑے مراکز میں شمار ہونے لگا ہے۔

سال 2022 میں ڈنمارک-سوئیڈش انتہاپسند راسموس پالودان، جو امیگریشن مخالف جماعت اسٹرام کورس کے سربراہ ہیں، کی اشتعال انگیز سرگرمیوں نے کئی شہروں میں بدامنی کو جنم دیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو معمول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اسی طرح 2023 میں سوئیڈن میں مقیم عراقی شہری سلوان مومیکا نے اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے سامنے قرآنِ کریم کو نذرِ آتش کیا، جس سے سفارتی کشیدگی پیدا ہوئی، اور یہ عمل پولیس کی باضابطہ اجازت سے انجام پایا۔

امریکہ میں بھی جیک لینگ، ایک انتہاپسند کارکن اور ریپبلکن سینیٹ کے امیدوار، نے مشی گن کے ڈیئر بورن اور ٹیکساس کے پلینو میں قرآنِ کریم کی بے حرمتی کر کے یہ ثابت کیا کہ اسلام دشمنی ایک وسیع تر ثقافتی جنگ کا حصہ بن چکی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ منظم لہر مغربی ممالک میں مسلمانوں کی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہے اور اس کے سدباب کے لئے عالمی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے سنجیدہ اور مؤثر ردِعمل ناگزیر ہے، تاکہ اسلام دشمنی روکی جا سکے اور مذہبی آزادی کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button