اسلامی دنیاافغانستانخبریں

طالبان کے سائے میں داعش کی واپسی؛ وسطی ایشیا سے 600 جنگجوؤں کی بھرتی اور افغانستان میں 14 سالہ بچوں کو خودکش تربیت

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کی تازہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ طالبان کے دعوؤں کے باوجود داعش کا خراسانی دھڑا افغانستان میں اب بھی سرگرم ہے۔

یہ گروہ وسطی ایشیا سے جنگجو بھرتی کر رہا ہے اور 14 سالہ بچوں کو ذہن سازی (برین واشنگ) کے ذریعہ خودکش حملوں کی تربیت دے رہا ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں داعش کے خراسانی دھڑے کے تقریباً دو ہزار جنگجو فعال ہیں، جن میں ایک قابلِ ذکر تعداد غیر ملکی جنگجوؤں کی ہے، بالخصوص تاجکستان اور ازبکستان سے تعلق رکھنے والوں کی۔

کمیٹی کے مطابق وسطی ایشیائی ممالک سے تقریباً 600 رضاکار اس گروہ میں شامل ہوئے ہیں، جن میں سے بعض افغانستان پہنچ چکے ہیں جبکہ بعض کو یورپ بھی بھیجا گیا ہے۔

ان افراد میں سے اکثر کی عمریں 17 سے 18 سال کے درمیان ہیں اور ان کا ماضی میں کسی دہشت گرد سرگرمی سے تعلق نہیں رہا، تاہم آن لائن مذہبی گروہوں اور واٹس ایپ جیسے پیغام رسانی کے پلیٹ فارمز کے ذریعہ انہیں انتہا پسندی کی طرف مائل کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ داعش کا یہ سنی انتہاپسند گروہ طالبان کے زیرِ کنٹرول ڈھانچوں میں دراندازی کی کوشش کر رہا ہے اور اپنی عملی صلاحیت بڑھانے کے لئے ’’سلیپر سیلز‘‘ کا نیٹ ورک قائم کر رہا ہے۔

افغانستان کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں، خصوصاً پاکستان کی سرحد کے قریب، مدارس اور تعلیمی مراکز میں بچوں اور نوجوانوں کی بھرتی کی جا رہی ہے۔

تقریباً 14 سال کے بچوں کو خودکش حملوں کی تربیت دی جا رہی ہے اور انہیں ذہنی طور پر اس مقصد کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی کمیٹی نے زور دیا ہے کہ اگرچہ افغانستان میں داعش کے حملوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، تاہم یہ گروہ اب بھی لچکدار اور مضبوط ہے، اور طالبان اس کے تمام ٹھکانوں کو مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

داعش خراسانی دھڑے نے اپنی ترجیح شیعہ برادری، طالبان کے اہلکاروں اور غیر ملکی شہریوں پر حملوں کو قرار دیا ہے اور اس نے سرحد پار حملے کرنے کی صلاحیت بھی برقرار رکھی ہے۔

طالبان افغانستان میں داعش کی موجودگی کی تردید کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ خراسانی شاخ کو کچل دیا گیا ہے اور وہ پاکستان منتقل ہو چکی ہے،

تاہم اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹس اور مقامی ذرائع اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ داعش کا یہ سنی انتہاء پسند گروہ اب بھی افغانستان، ہمسایہ ممالک اور پورے خطے کے امن و استحکام کے لئے ایک سنگین خطرہ بنا ہوا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button