ایرانتاریخ اسلام

28 جمادی الثانی؛ وفات علامہ محمد بن سلیمان تُنکابُنی (صاحب قصص العلماء) رحمۃ اللہ علیہ

تیرہویں اور چودہویں صدی ہجری کے معروف عظیم شیعہ عالم، فقیہ، مفسر اور ماہر علم رجال علامہ محمد بن سلیمان تنکابنی رحمۃ اللہ علیہ سن 1234 یا 1235 میں ایک دینی اور علمی خانوادہ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد تیرہویں صدی ہجری میں ایران کے معروف حکیم اور ڈاکٹر تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ علویہ بھی ایک دینی اور علمی گھرانے کی بیٹی تھیں۔

آپ نے اپنا بچپن اور نوجوانی تنکابن میں گزارا اور عربی ادب اور منطق کی تعلیم اپنے والد اور اپنے دو ماموؤں سے حاصل کی۔ والد کے انتقال کے بعد مزید تعلیم کے لئے عراق چلے گئے۔ وہاں فقہ، اصول اور علمِ رجال آیۃ اللہ سید ابراہیم موسوی قزوینی (صاحب ضوابط الاصول) سے پڑھی اور آیۃ اللہ العظمیٰ محمد حسن نجفی (صاحبِ جواہر الکلام) رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ زین العابدین مازندرانی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد باقر شفتی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ آقا دربندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم علماء و اساتذہ کے دروس میں بھی شرکت کی۔ نیز مذکورہ اساتذہ اور دیگر علماء و فقہاء سے بھی اجازۂ روایت حاصل کیا۔

علامہ تنکابنی رحمۃ اللہ علیہ آیۃ اللہ محمد باقر خوانساری (مصنفِ روضات الجنّات) رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم علماء کے مباحث تھے۔

گراں قدر کتاب قصص العلماء علامہ تنکابنی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف ہے۔

علامہ تنکابنی رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف علمی میدانوں میں، جیسے عربی ادب، شاعری، اصولِ فقہ، فقہ، درایہ، تفسیر، کلام اور فلسفہ میں کتابیں لکھیں۔ ان میں تالیف، شرح، حاشیہ اور تراجم شامل ہیں، جو خود ان کے بیان کے مطابق 171 سے زیادہ ہیں۔

کتاب قصص العلماء

علامہ تنکابنی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور ترین تالیف کتاب قصص العلماء ہے۔ علامہ تبریزی خیابانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب کی تعریف و تحسین کی ہے۔ یہ کتاب فارسی زبان میں لکھی گئی ہے اور اس میں 153 شیعہ علماء کے حالاتِ زندگی بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تیسری صدی ہجری سے تیرہویں صدی ہجری کے آخر تک کے علماء اور مولفین کے تذکرے قلم بند کئے ہیں اور ان میں سے 60 فیصد سے زیادہ صفوی دور اور اس کے بعد کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے دیگر علماء کے حالات بھی ضمناً بیان کئے ہیں۔ علامہ تنکابنی رحمۃ اللہ علیہ نے چوتھی سوانح عمری اپنے مفصل تعارف اور قلمی آثار کے ذکر سے مخصوص کیا ہے۔

دیگر علمی آثار

شرح مفتاح الفلاح (شیخ بہائی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مفتاح الفلاح کی شرح)

بدائع الاحکام فی شرح شرائع الاسلام (شرائع الاسلام کی شرح)

آداب المناظرہ (مناظرہ کے آداب پر رسالہ)

لسان الصدق (علمِ اصول میں کتاب)

شرح بر وجیزۂ شیخ بہائی  (علمِ درایہ میں شیخ بہائی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب وجیزہ کی شرح)

تعلیقہ بر قوانین (قوانین پر حاشیہ)

رسالہ فی غسلِ جنابت (غسلِ جنابت کے بارے میں رسالہ)

رسالۂ فاطمیہ (حضرت معصومہؑ کی کرامات کے موضوع پر)

الفوائد الرضویہ (منظوم تصنیف؛ نبوتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے اثبات اور یہود و نصاریٰ کے رد میں)

حاشیہ بر کتاب ریاض (شرحِ کبیر کے نام سے معروف)

شرحِ صحیفۂ سجادیہ

الفوائد فی اصولِ الدین (اصولِ دین)

منظومۂ الفیہ  (نبوتِ خاصہ کے بارے میں منظوم تصنیف)

فقہِ منظوم (عربی زبان میں)

توشیحُ التفسیر  (تفسیر پر تعلیقات)

ان میں سے آخری چار آثار شائع ہو چکے ہیں۔

وفات حسرت آیات

علامہ تنکابنی رحمۃ اللہ علیہ کی 28 جمادی‌الثانی 1302ھ کو وفات ہوئی اور تنکابن کے گاؤں سلیمان‌آباد میں سپردِ خاک ہوئے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button