
سعودی عرب نے مسلسل دوسرے سال سزائے موت پر عمل درآمد کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے، جہاں رواں سال 340 افراد کو پھانسی دی گئی۔
شیعہ خبر رساں ایجنسی کے مطابق ان میں سے بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو شیعہ اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان پر عائد کئے گئے الزامات اکثر بے بنیاد، غیر ثابت شدہ اور تکراری نوعیت کے تھے۔
یورو نیوز فارسی کی رپورٹ کے مطابق ان سزاؤں کا ایک بڑا حصہ منشیات سے متعلق مقدمات سے جڑا ہوا ہے، تاہم انسانی حقوق کے کارکنان ان اقدامات کو محمد بن سلمان کے ان اصلاحاتی وعدوں کے سراسر منافی قرار دیتے ہیں جو بظاہر تشدد میں کمی اور ملک کو جدید بنانے کے لئے کئے گئے تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ رجحان نہ صرف اصلاحات کے دعوؤں سے انحراف کی علامت ہے بلکہ اس کے سنگین سماجی اور سلامتی سے متعلق نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔
سزاؤں میں اس اضافے نے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے اور ماہرین کے نزدیک یہ سعودی عرب میں جابرانہ پالیسیوں کے تسلسل کی واضح علامت ہے۔




