ہندوستان

13 دسمبر؛ یوم وفات مولانا سید کلب عابد نقوی طاب ثراہ

کچھ شخصیات وقت کی گرد سے بلند ہوتی ہیں، وہ سطح زمان پر نہیں رہتیں بلکہ دلوں کی گہرائیوں میں بس جاتی ہیں۔ ان کے جانے سے محفلیں تو خالی ہوتی ہیں، مگر روح کے آنگن میں ایک ایسا نور چھوڑ جاتی ہیں جو برسوں بعد بھی ماند نہیں پڑتا۔
ایسی ہی ایک درخشاں شخصیت مولانا سید کلبِ عابد نقوی طاب ثراہ تھے۔

وہ عالم تھے، قوم کی دینی اور علمی رہنمائی کرتے تھے، وہ معلم تھے انہوں نے طلاب علوم دینیہ کی تربیت کی، وہ پروفیسر تھے انہوں نے اسٹوڈنٹس کی تعلیم و تربیت فرمائی۔

وہ خطیب تھے، مگر ان کی خطابت صرف ایک فن نہیں بلکہ ذمہ داری اور خدمت تھی۔ نماز جمعہ کے خطبات ہوں یا مجالس عزا، ہر جگہ بہترین اسلوب خطابت میں عقائد کی تقویت، احکام پر عمل کی ترغیب اور اخلاق حسنہ کی تشویق ہوتی تھی۔

ان کی گفتگو میں صرف معلومات نہیں ہوتیں تھیں بلکہ روشنی اور بیداری ہوتی تھی، ایک روحانی لمس ہوتا تھا جو انسان کو اس کے باطن میں لے جاتا تھا۔

ان کی زبان، محض زبان نہ تھی، بلکہ وہ عشق کا لہجہ تھی، وہ ماتم کی حرارت تھی،
وہ حسینیت کا چراغ تھا
جو سننے والے کو سرحد ایمان سے نزدیک کرتا تھا۔

مولانا کلبِ عابد نقوی کی پوری زندگی خدمتِ دین کا وقف شدہ مصرعہ تھی۔ وہ نہ شہرت کے طالب رہے، نہ تعریف کے مسافر۔
وہ تو بس راہ حسین علیه السلام کے راہی تھے،

ان کی شخصیت تواضع، انکساری، خلوص اور وقار کا پیکر تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے ایک اعلان پر جم غفیر ہوتا اور ایک اشارے پر مجمع بکھر جاتا۔

اختلاف نظر ضرور رکھتے لیکن کبھی اس اختلاف سے اخلاق کو متاثر ہونے نہ دیتے۔

صلہ رحمی کے پابند تھے لیکن قوم کی تعمیر میں اگر نااہل ہوتا تو اسے قومی امور سے دور رکھتے، البتہ غیر اگر اہل ہوتا تو وہ آپ کا ہم نشین و مشاور نظر آتا۔

آج جب ہم ان کی برسی مناتے ہیں، تو حقیقت میں اُن روشنیوں کو سلام کرتے ہیں
جو انہوں نے اپنے کردار سے دلوں میں پیدا کی تھیں۔
یہ روشنی کبھی بجھنے والی نہیں، کیونکہ یہ شمعِ اخلاص ہے۔

سلام ہو اس بابرکت آواز پر
جس نے کربلا کے پیغام کو نسلوں کے کانوں تک پہنچایا۔
سلام ہو اس چراغ پر جو بجھ کر بھی اندھیروں کو شکست دیتا رہا۔
سلام ہو مولانا سید کلبِ عابد نقوی پر جن کی عالمانہ اور حکیمانہ قیادت نے قوم کو تسبیح کی طرح جوڑے رکھا۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button