شیعہ مرجعیت

18 جمادی الثانی؛ یوم شہادت شہید ثالث قاضی نور اللہ شوشتری رضوان اللہ تعالی علیہ

18 جمادی الثانی؛ یوم شہادت شہید ثالث قاضی نور اللہ شوشتری رضوان اللہ تعالی علیہ

شہید ثالث قاضی سید نوراللہ حسینی مرعشی شوشتری رضوان اللہ تعالی علیہ سنہ 956 ہجری کو شوشتر کے ایک اصیل، رفیع النسب اور علم‌ پرور خانوادے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدِ بزرگوار، سید شریف یا سید شرف الدین شوشتری، اس دیار کے ممتاز فقہاء میں سے تھے۔ قاضی نوراللہ کا سلسلۂ نسب 26 واسطوں سے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام تک پہنچتا ہے—جو ان کے علمی و روحانی شرف کی درخشاں دلیل ہے۔

آپ نے اپنے علمی سفر کا آغاز اپنے وطن ہی میں والد کی تربیتِ مستقیم کے زیرِ سایہ کیا اور علومِ اوّلیہ و مقدمات سے لے کر مباحثِ نقلی و عقلی تک پختہ بنیادیں استوار کیں۔ شوقِ تحصیلِ علم اور پاکیزگیِ باطن نے انہیں 23 برس کی عمر میں مشہدِ مقدس کی جانب روانہ کیا، جہاں انہوں نے اربابِ دانش کی محفلوں میں حاضر ہو کر اپنے علم کی شمع کو اور بھی فروزاں کیا۔

قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ ایک ہمہ جہت عالم، صاحبِ قلم محقق اور گوناگوں علوم کے درخشاں گوہر تھے۔ وہ حدیث، فقہ، کلام، منطق اور دیگر علومِ معقول و منقول میں استادِ زمانہ سمجھے جاتے تھے، جب کہ ریاضیات، عربی ادب، معانی و بیان اور فنونِ عروض و قافیہ میں بھی ان کی تصنیفات اپنی نفاست اور تحقیق کے اعتبار سے بے مثال ہیں۔

قاضی نوراللہ شوشتری، جن کی علمی رفعتیں اور روحانی منزلت آفتابِ نصف النہار کی طرح نمایاں تھیں، شاعری میں بھی طبعِ رواں رکھتے تھے اور ایک گراں قدر دیوان ان کی یادگار ہے۔ ماہِ شوال سنہ 999 ہجری میں آپ نے مشہدِ مقدس سے سرزمینِ ہندوستان کی جانب کوچ فرمایا۔

آپ کی یہ ہجرت اس زمانے میں ہوئی جب اکبر بادشاہ سلطنتِ ہند کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھا۔ قاضی نوراللہ نے ہندوستان پہنچتے ہی ’’دیوانِ اکبر‘‘، یعنی شاہی دربار میں رسائی پائی۔ دربار میں اس وقت فتح اللہ شیرازی اور حکیم ابوالفتح گیلانی چونکہ صاحبِ منزلت تھے، اس لئے انہی حضرات نے قاضی نوراللہ کو اکبر بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔

اس دیدار کے محض دو برس بعد، فرمانِ شاہی کے تحت قاضی نوراللہ کو لاہور کی قضا کا منصب عطا ہوا۔ آپ کی ذمہ داریوں میں عموماً پیچیدہ مسائل کے حل، پیچیدہ تنازعات کی تحقیق اور امورِ عدل کی باریک بینی شامل تھی۔ ان کی چند نمایاں ماموریتیں درج ذیل ہیں: سنہ 1000 ہجری میں مغل یورشوں کے بعد ویران و پریشان کشمیر کی انتظامی صورتِ حال پر مفصل رپورٹ مرتب کرنے کا حکم ملا۔ سنہ 1005 ہجری میں مذہبی و فلاحی امور کی نگرانی و جانچ کے لئے آگرہ بھیجے گئے۔ اور سنہ 1008 ہجری میں اکبر بادشاہ نے آپ کو قاضیِ عسکر — یعنی فوج کا قاضی — مقرر فرمایا۔

قاضی نوراللہ، اگرچہ ایک بالعموم سنّی اکثریتی ماحول میں مقیم تھے، مگر تَقِیّہ کا سہارا نہ لیا۔ وہ اپنے تشیع کا اظہار نہایت صراحت سے کرتے رہے۔ اس کے باوجود، اکبر بادشاہ نے ان کی غیرمعمولی قابلیت، بصیرت اور امانتِ کردار کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ان پر اعتماد کیا اور انہیں نہایت اہم فرائض سے سرفراز فرمایا۔

بعض وفادار درباریوں اور  حامیوں کے انتقال کے بعد قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ نے وطن واپسی کا ارادہ کیا، مگر ان کی یہ کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں۔ رفتہ رفتہ وہ اکبر بادشاہ اور اس کے امرا کی حمایت سے محروم ہوتے گئے۔ آخر میں صرف حکیم علی گیلانی ہی ان کے پشت پناہ تھے، لیکن وہ بھی اکبر کے آخری ایامِ سلطنت میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس طرح قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ تنہائی اور گوشہ‌نشینی کا شکار ہوگئے۔

یہ تنہائی اور دباؤ، خصوصاً اکبر کے انتقال اور سلطان سلیم (جہانگیر) کے تخت نشین ہونے کے بعد، حد سے زیادہ بڑھ گیا۔ متعصب سنی مولویوں نے ان پر شدید دباؤ ڈالا اور ان کی زندگی دن بدن مشکل تر ہوتی چلی گئی۔ آخرکار ان کی تصنیفات—خصوصاً احقاق الحق، جس میں انہوں نے خلفائے ثلاثہ پر تنقید کی تھی—اہلِ سنت کے متعصب مولویوں کے غیظ و غضب کا سبب بنیں، اور یوں انہوں نے محبتِ مولائے متقیان امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کی۔

مخالفتوں کی یہ آندھی سنہ 1019ہجری میں اپنے عروج پر پہنچی، یہاں تک کہ دشمنوں نے نہایت سفاکانہ انداز میں قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ پر حملہ کیا۔ انہوں نے کانٹوں بھری شاخوں سے انہیں اتنا مارا کہ وہ اسی دلخراش منظر میں جامِ شہادت نوش کر گئے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button