10 دسمبر؛ یوم وفات میر انیس رحمۃ اللہ علیہ

اردو مرثیہ جب اپنے عروج کے میناروں پر کھڑا دکھائی دیتا ہے تو اس کی بلند ترین چوٹی پر ایک ہی نام سب سے پہلے جگمگاتا ہے—میر ببر علی انیس۔ ان کی وفات نہ صرف ایک شاعر کا رخصت ہونا تھا بلکہ مرثیہ گوئی کی صدیوں پر محیط روایت میں ایک ایسے درخشاں باب کا بند ہونا تھا جس کی نظیر آج تک نہیں ملتی۔ میر انیس کی موت گویا فنِ مرثیہ کے دل پر ایک ایسا چرکا تھا کہ جس کی گونج آج بھی ادب کے افق پر سنائی دیتی ہے۔
انیس کا زمانہ فن، تہذیب اور روایت کا زمانہ تھا۔ لیکن جس طرح انہوں نے مرثیہ کو محض رثا سے اٹھا کر انسانی جذبات، کردار نگاری، منظر پردازی، اخلاقی فلسفہ، اور حماسی کیفیتوں کا آئینہ بنا دیا، وہ ان کا اپنا اعجاز تھا۔ ان کی وفات کے ساتھ عصرِ لکھنؤ کا وہ ادبی بانکپن، وہ زبان کی رکھ رکھاؤ، وہ کرداروں کے جذبات کی باریکی اور وہ جنگ کی ہیبت ناک تصویریں بھی جیسے دھندلانے لگیں۔ گویوں کے لب ساکت ہوئے، محفلوں کی رونق کم ہوئی، اور اہلِ سخن کے دلوں پر افسردگی چھا گئی۔
میر انیس محض ایک شاعر نہیں تھے بلکہ ایک عہد تھے—ایک اسلوب، ایک طرزِ احساس، ایک فکری کائنات۔ ان کی موت کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ لفظ یتیم ہوگئے، تشبیہیں خاموش ہو گئیں، استعارے سوگوار ہو کر بیٹھ گئے۔ وہ قلم جس نے شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے واقعات کو صدیوں کی تازگی عطا کی تھی، ایک دن رکھ دیا گیا، اور لکھنؤ کی فضاؤں میں ایک عجیب سا سناٹا چھا گیا۔
انیس کی وفات نے یہ احساس مزید پختہ کیا کہ بعض شخصیات صرف اپنے زمانے کے لئے نہیں ہوتیں؛ وہ آنے والی نسلوں کے لئے چراغِ راہ بن جاتی ہیں۔ آج بھی جب ان کی مرثیے پڑھے جاتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی زندہ روایت سانس لے رہی ہو، جیسے حروف اب بھی خونِ صداقت کی خوشبو لئے ہوئے ہوں۔ یہی ان کی فنکارانہ عظمت ہے کہ مرثیہ ان کے بعد بھی ان کے سائے سے باہر نہ نکل سکا۔
ان کی وفات ایک عظیم شاعر کا رخصت ہونا ضرور تھی، مگر میر انیس بجھ کر بھی بجھ نہ سکے۔ ان کا فن، ان کا درد، ان کا شعور، ان کی اخلاقی بلندی—سب کچھ آج بھی زندہ ہے۔ انیس چلے گئے، لیکن مرثیہ انیس ہی کا رہ گیا۔ ان کی یاد، ان کا رنگ، ان کی لفظی شان و شوکت—یہ سب اردو ادب کے ماتھے کا جھومر بن کر ہمیشہ چمکتے رہیں گے۔
10 دسمبر 1874 عیسوی کو اردو زبان و ادب کا خورشید تاباں لکھنو میں غروب ہو گیا۔
ہم خدائے سخن میر انیس رحمۃ اللہ علیہ کے یوم وفات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور جملہ عزاداروں سے گزارش کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے سچے شیعہ، سچے پیروکار، شاعر، ذاکر، مرثیہ نگار اور مرثیہ خوان کے علوئے درجات کے لئے ایک بار سورہ حمد اور تین بار سورہ اخلاص کی تلاوت کریں۔




