اسلامی دنیاافغانستانخبریں

افغانستان میں خواتین صحافیوں کا بتدریج اخراج؛ خواتین کی صحافت کا زوال

آج کے افغانستان میں خواتین صحافیوں کا خاتمہ کسی سرکاری فرمان کا نتیجہ نہیں، بلکہ پوشیدہ دباؤ، رچے بسے خوف اور ہمہ گیر دباؤ کا حاصل ہے۔

ایک ایسا سلسلہ جو طالبان کی جانب سے کسی تحریری حکم کے بغیر جاری ہے، مگر آہستہ آہستہ ایک ایسے مقدس پیشے کو ختم کر رہا ہے جو معاشرتی حقائق کی اصل ترجمانی کا ستون سمجھا جاتا ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

میدانی رپورٹس بتاتی ہیں کہ افغانستان میں خواتین صحافی حکومت کے ظاہری فرمان سے نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے بنائے گئے حالات کے سبب خود ہی صحافت سے الگ ہو رہی ہیں۔

مثلاً افغانستان کے صحافتی مراکز سے منسلک ذرائع نے بتایا کہ صرف ایک مختصر فون کال یا ’’صورتحال‘‘ کے نام پر ایک مبہم معذرت، خواتین کو الگ کرنے کے لئے کافی ثابت ہوئی ہے۔

ایسی "صورتحال” جو اگرچہ طالبان نے تحریر نہیں کی، لیکن میڈیا کے ہر فیصلے پر اس کی موجودگی واضح ہے۔

مرکز خبرنگاران افغانستان، یوناما اور دیگر اداروں کی رپورٹس کے مطابق بار بار صحافیوں کی گرفتاری، میڈیا اداروں کی بندش اور خواتین سے متعلق شعبوں پر دباؤ نے میڈیا مینیجرز کو احتیاطاً خواتین کو بھرتی نہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

یہ فیصلہ کسی قانون کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اس خوف سے کیا جاتا ہے کہ ’’کل کو کیا کہا جائے گا‘‘۔ یہی خوف، خواتین کو سب سے پہلے شعبہ سے باہر نکال دینے کا سبب بنتا ہے۔

شیعہ خبر رساں ایجنسی نے فرانس نیوز پریس کے حوالے سے بتایا کہ خواتین صحافیوں نے ’’خاموش برطرفیوں‘‘ کو اپنے مستقبل کی تباہی قرار دیا ہے۔

ان میں سے اکثر مجبور ہو کر اپنی اصل پیشے سے کہیں کم آمدنی والے کام—جیسے سلائی کڑھائی اور معمولی گھریلو مشاغل—اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔

کچھ خواتین اپنی پیشہ ورانہ شناخت کے مکمل انہدام کا سامنا کر رہی ہیں؛ کیوں کہ ان کی ملازمت کا راستہ حتیٰ کہ انٹرویو میں کامیابی کے بعد بھی بغیر کسی واضح وجہ کے روک دیا جاتا ہے۔

صحافیوں کے حقوق کے حامی اداروں کے مطابق، 80 فیصد سے زیادہ خواتین صحافی کسی نہ کسی شکل میں تشدد، دھمکی یا دباؤ کا سامنا کر چکی ہیں۔

نجی میڈیا ادارے بھی سوشل میڈیا صفحات کے بند ہونے یا سیکورٹی دباؤ کے خوف سے بتدریج خواتین کو مواد تیار کرنے والی ٹیموں سے ہٹا رہے ہیں۔

جامعات کی بندش، تربیتی ورکشاپس کی معطلی اور داخلی میڈیا کی پابندیوں کے ساتھ، گزشتہ دہائی کی خواتین صحافیوں کی نسل—جسے ’’نسلِ گذار‘‘ کہا جاتا ہے—پیشہ ورانہ طور پر غائب ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہے۔

ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ یہ صورت حال نہ صرف خواتین کی صحافتی یادداشت کو ختم کر دے گی بلکہ ان کے بارے میں پیش کی جانے والی روایات کو بھی یک طرفہ بنا دے گی۔

مستقبل میں بیانیہ وہ ہوگا جو مرد تیار کریں گے اور مردوں کے لئے ہوگا۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button