آیۃ اللہ میرزا حبیب اللہ رشتی: علم، تقویٰ اور اخلاص کا پیکر
آیۃ اللہ میرزا حبیب اللہ رشتی: علم، تقویٰ اور اخلاص کا پیکر
آیۃ اللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ شیعہ تاریخ کی ان عظیم شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اپنی علمی عظمت کے ساتھ ساتھ تقویٰ، اخلاص اور بے نفسی کی ایسی مثال قائم کی جو آج بھی اہل علم کے لیے مشعل راہ ہے۔
آپ 1234 ھ میں املش ایران میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب میرزا محمد علی خان انتہائی دیندار اور علاقے کے حاکم تھے۔ قرآن کریم کی تعلیم سے آغاز کرتے ہوئے آپ نے ابتدائی تعلیم لنگرود اور رشت میں حاصل کی۔ بعد ازاں حوزہ علمیہ قزوین میں شیخ عبدالکریم ایروانی سے فقہ و اصول کی تعلیم حاصل کی اور صرف 25 برس کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔
چار سال املش میں دینی خدمات انجام دینے کے بعد آپ حوزہ علمیہ نجف اشرف تشریف لائے اور صاحب جواہر آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسن نجفی کے درس میں شامل ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ مرتضیٰ انصاری کے شاگردوں میں شامل ہو گئے اور ان کے چار اہم شاگردوں میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
آپ کی بے نفسی کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ کے والد کی وفات ہوئی اور میراث کے سلسلے میں بھائیوں میں اختلاف ہوا تو آپ بغیر کچھ لیے نجف اشرف واپس آ گئے۔ فقر و تنگدستی اس حد تک بڑھی کہ گھر کا سامان بیچ کر زندگی گزارنی پڑی اور نجف اشرف کی شدید گرمی میں پانی خریدنے کے لیے بھی پیسے نہ رہے۔
آپ ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مصروف رہتے۔ درس دینے کے لیے نکلتے تو وضو کر کے حافظے سے سورہ یٰسین کی تلاوت شروع کرتے اور بارگاہ امیر المومنین علیہ السلام کے باب القبلہ پر جہاں آپ کے استاد شیخ مرتضیٰ انصاری کی قبر ہے، وہاں تلاوت مکمل فرماتے۔
شرعی احکام بیان کرنے میں آپ انتہائی احتیاط برتتے اور تحقیق و جستجو کے بعد ہی مسئلہ بیان فرماتے۔ حالت احتضار میں جب آپ کے پیر قبلہ کی سمت کیے گئے تو آپ نے انہیں سمیٹ لیا اور فرمایا کہ بغیر وضو کے قبلہ کی طرف پیر پھیلانا مناسب نہیں۔
شرعی رقومات لینے سے بھی پرہیز فرماتے تھے۔ جب ہندوستان کے ایک تاجر نے آپ کو شرعی رقوم دینی چاہیں تو آپ غضبناک ہو گئے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ مرتضیٰ انصاری کی وفات کے بعد جب آپ سے مرجعیت کی گذارش کی گئی تو آپ نے انکار کر دیا اور اپنے شاگردوں کو آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی کی طرف رجوع کا حکم دیا۔ آپ کا ماننا تھا کہ مجتہد کو سیاست کا بھی ماہر ہونا چاہیے۔ تنباکو کی حرمت کے فتوے میں آپ نے میرزائے شیرازی کی مکمل حمایت فرمائی تاکہ دشمن شیعوں کو تقسیم نہ کر سکے۔
آپ علماء کا بے حد احترام کرتے تھے۔ جب آیۃ اللہ شیخ حسن مامقانی نے آپ سے نجف میں قیام کی گذارش کی تو آپ نے سفر ترک کر دیا اور فرمایا کہ میں آپ کو عادل فقیہ سمجھتا ہوں، لہٰذا آپ کی اطاعت واجب ہے، حالانکہ وہ آپ کے شاگرد تھے۔
آپ نے اپنے والدین کی تین بار قضا نمازیں ادا کیں اور علماء کی توہین کرنے والوں کے خلاف سخت موقف اختیار فرماتے تھے۔
آپ نے فقہ، اصول اور تفسیر میں متعدد کتابیں تالیف کیں۔ آپ کے شاگردوں میں آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی، آیۃ اللہ العظمیٰ آقا ضیاء الدین عراقی، آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ فضل اللہ نوری جیسی عظیم شخصیات شامل ہیں۔
آیۃ اللہ میرزا حبیب اللہ رشتی کی زندگی علم، تقویٰ، اخلاص اور بے نفسی کا ایسا مجموعہ ہے جو آج کے دور میں بھی طلاب اور علماء کے لیے مثال ہے۔




