6 دسمبر — صدیوں کی عبادت، لمحوں کی سیاست

6 دسمبر کی تاریخ جب بھی تقویم کے ورقوں پر سانس لیتی ہے، فضا میں ایک عجیب سا بوجھ، دہکتی ہوئی ٹھنڈک اور دل کے نہاں خانوں میں ہلکی سی لرزش اُتر آتی ہے۔ یہ دن صرف ماضی کا کوئی واقعہ نہیں، ایک چیخ ہے جس نے خاموشی کا سارا جلال توڑ دیا۔
یہ وہ لمحہ ہے جب وقت نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے تقدس کو خاک آلود دیکھا۔
صدیوں پر محیط عبادت کی مہک، پیشانیوں کی حرارت، دیواروں میں جذب تسبیحوں کی مدھم گونج، سب کچھ صرف ایک عمارت میں نہیں تھا بلکہ ایک روح میں تھا۔
بابری مسجد کسی اینٹ، کسی گنبد، کسی محراب کا نام نہیں تھا، وہ تو ایک عہد تھا، صدیوں کے امن و صلح کی خوشبو تھی،
وہ ایک ایسی روشنی تھی جس نے کبھی کسی دوسرے کی روشنی کو کم نہیں کیا۔
مگر ہائے سیاست…
آہ وہ سیاست جو کبھی چراغ بنے ہاتھوں میں بھی تیل کی جگہ آگ بھر دیتی ہے۔
وہ سیاست جو لمحوں میں فیصلے کرتی ہے اور صدیوں کو تعزیت نامہ تھما دیتی ہے۔
وہ سیاست جو شور کو دلیل، اور ہجوم کو انصاف سمجھتی ہے۔
6 دسمبر کے دن جب غبار اٹھا، تو ملبہ صرف ایک مسجد کا نہیں گرا؛ بلکہ تاریخ لرز گئی،
بھروسہ ٹوٹ گیا اور تہذیب کا آئینہ کرچی کرچی ہو کر اپنے ہی ٹکڑوں پر خون روتا رہ گیا۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کس قدر نازک ہوتی ہے عبادت!
جو برسوں کی عاجزی، صدیوں کی بندگی اور نسلوں کی دعا سے بنتی ہے، مگر جسے چند لمحوں کے شعلوں سے، ایک نعرہ، ایک فریب، ایک سیاسی چاہت چٹخنی کی آواز میں توڑ دیتی ہے۔
6 دسمبر ایک سوال ہے جسے تاریخ نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا ہے:
کیا مقدس جگہیں اس قدر بے آسرا ہو سکتی ہیں؟
کیا عبادت کا وقار ہجوم کے قدموں کی ٹھوکر میں رکھا جا سکتا ہے؟
کیا انسان اتنا طاقتور… اور اتنا بے بس بھی ہے؟
یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ نفرت کا لمحہ، امن کے برسوں کو یتیم کر دیتا ہے۔
اور عبادت… وہ عبادت جو دلوں کو جوڑتی ہے، اگر اسے سیاست کے کھردرے ہاتھ چھو لیں
تو اس کا نور بھی اپنا سہاگ گنوا دیتا ہے۔
6 دسمبر ہزاروں داستانیں نہیں،
صرف ایک سادہ مگر لرزاتی ہوئی حقیقت ہے کہ انسان جب خدا کے گھر کو گراتا ہے
تو دراصل اپنی ہی انسانیت کی بنیاد کھود دیتا ہے۔
خدا ہمیں اپنی معرفت اور با معرفت عبادت کی توفیق عطا فرمائے۔




