امریکہ

اخوان المسلمین کے لئے قومی ریاستوں کے چیلنجز؛ عرب دنیا سے واشنگٹن تک اور وسیع سکیورٹی خطرات

اخوان المسلمین کے لئے قومی ریاستوں کے چیلنجز؛ عرب دنیا سے واشنگٹن تک اور وسیع سکیورٹی خطرات

ٹرمپ حکومت کی جانب سے اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی حالیہ کارروائی نے ایک بار پھر اس تحریک کے ماورائے قومی (فراملی) مزاج اور اس کے سکیورٹی اثرات کو عرب دنیا سے لے کر واشنگٹن تک اجاگر کر دیا ہے۔

یہ وہ تحریک ہے جو وسیع نیٹ ورکس اور سخت گیر نظریاتی بنیادوں کے سبب قومی حکومتوں کے لئے سنگین چیلنجز کا باعث بنتی رہی ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کا اخوان المسلمین کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ، امریکہ کی اس فراملی تحریک کے ساتھ نئے مرحلے کا نقطۂ آغاز سمجھا جا رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام محض ایک سکیورٹی ردّعمل نہیں، بلکہ واشنگٹن کی اُن دیرینہ تشویشات کا بھی اظہار ہے جو امریکہ کے اندر اور باہر اس تحریک کی منظم سرگرمیوں کے حوالے سے پائی جاتی ہیں۔

اس فیصلے کے بعد مصر، اردن اور لبنان میں سرگرم اخوان کے مختلف شعبوں کی امریکی سکیورٹی اداروں کے ذریعہ نگرانی میں اضافہ ہوا ہے، اور امریکہ کی مسلم کمیونٹی میں ان کی سماجی و سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے حساسیت مزید بڑھ گئی ہے۔

اسی دوران عرب دنیا بھی ایک بار پھر اخوان المسلمین کے علاقائی نیٹ ورکس کے اثرات سے دوچار ہے۔

سب سے پہلے تو یہ گروہ اپنی سیاسی سرگرمیوں اور بعض ممالک کے سسٹمز کی جگہ لینے کی کوشش کے باعث ہمیشہ سے قومی ریاست کے تصور سے ٹکراؤ میں رہا ہے۔

مختلف حکومتیں اس جماعت کی تنظیمی طاقت اور سماجی اثرورسوخ سے خائف رہی ہیں؛ یہاں تک کہ اردن نے حال ہی میں اخوان المسلمین کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگا دی اور متعدد ایسے افراد کو گرفتار کیا جو پرتشدد کارروائیوں سے متعلق تھے۔

ان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اس تحریک کی فکری بنیادیں بھی زیرِ بحث ہیں۔

اس جماعت کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1960 کی دہائی سے سید قطب کی تعلیمات نے اخوان المسلمین کو ایک زیادہ سخت گیر اور رادیکال تعبیر کی طرف مائل کیا۔

یہی تعبیر سنی شدت پسند تحریکوں کی نظریاتی بنیاد بنی، جنہوں نے مغربی اور جنوبی ایشیا میں کھلے عام تشدد اور دہشت گردی کا راستہ اپنایا۔

یہ نظریاتی مبانی مختلف ممالک میں سرگرم متعدد دہشت گرد گروہوں کے لئے محرک ثابت ہوئیں، جیسے: القاعدہ، داعش، طالبان، بوکو حرام، الشباب، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جماعت اسلامی پاکستان، حرکہ النضال الاسلامی (جنداللہ پاکستان)، انصار بیت المقدس (ولایت سیناء)، جیش الاسلام، تحریر الشام، جیش النصرہ، انصار الدین، اور حزب التحریر۔ ان گروہوں نے سخت گیر اور فرقہ وارانہ تعبیرات کی بنیاد پر قتل و غارت اور دہشت گردی کو دین کے نام پر جائز ٹھہرایا۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کا یہ اقدام ایک بار پھر اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ اخوان المسلمین، عرب دنیا سے واشنگٹن تک، محض ایک سیاسی تحریک نہیں بلکہ ایک ایسا ماورائے قومی نیٹ ورک ہے جس میں سکیورٹی بحران پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو قومی ریاستوں کے لیے مستقل چیلنج بنا رہے گا۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button