خبریںیورپ

یورپ میں اسلام دشمنی کا دائیں بازو کی پوپولسٹ اور اقتدارگرا تحریکوں سے گہرا تعلق

جرمنی میں ہونے والی ایک جامع علمی تحقیق کے مطابق یورپ میں بڑھتی ہوئی اسلام دشمنی کی جڑیں کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے مذہبی عقائد میں نہیں بلکہ دائیں بازو کی پوپولسٹ اور اقتدارگرا تحریکوں میں پیوست ہیں۔

یہ رپورٹ، جسے میڈیا ادارہ ’’ڈوئچے ویلے‘‘ کے فراہم کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے، انہی نتائج کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ پیش کرتی ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

میڈیا ’’ڈوئچے ویلے‘‘ کے مطابق، یونیورسٹی آف یوہانس گٹن برگ مائنز میں کی گئی ایک وسیع تحقیق یورپ میں اسلام دشمنی کی جڑوں کے بارے میں ایک نیا اور زیادہ واضح منظرنامہ پیش کرتی ہے۔

اس تحقیق میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور نیدرلینڈز کے تقریباً پچھتر ہزار افراد کے جوابات اور اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اسلام اور مسلمانوں کو ’’خطرہ‘‘ قرار دینے والا بیانیہ دیگر مذاہب، خصوصاً مسیحیت، کے ماننے والوں کی ذاتی مذہبیت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔

تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو باقاعدگی سے چرچ یا دیگر مذاہب کی مذہبی عبادات میں شرکت کرتے ہیں، لازمی طور پر اسلام دشمن نظریات نہیں رکھتے، اور ان کی مذہبی وابستگی کی شدت کا ایسے منفی رویوں کے بڑھنے سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے۔

شیعہ خبر رساں ایجنسی کے مطابق، ’’ڈوئچے ویلے‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس تحقیق کے مطابق اسلام دشمنی کا بنیادی سرچشمہ دائیں بازو کی پوپولسٹ تحریکیں ہیں، جو گزشتہ برسوں میں سیاسی و میڈیا ذرائع کو استعمال کرکے اس بیانیے کو مضبوط بنا رہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، انتہائی دائیں بازو کے گروہ مسیحیت کو ایک مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ ’’مغربی تہذیب کی ثقافتی علامت‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور پھر اسلام کو اس تہذیب کے ’’غیر‘‘ اور ’’خطرہ‘‘ کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ طرزِ فکر مذہب کے نام پر سیاسی اور شناختی اہداف کے حصول کی واضح کوشش ہے۔’’ڈوئچے ویلے‘‘ مزید لکھتا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں گزشتہ برسوں کے دوران نسل پرستی، اسلام دشمنی، غیرملکیوں کے خلاف نفرت اور دائیں بازو کی پرتشدد سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

یہ رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس قسم کی تحریکوں کی سیاسی و سماجی زمین مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور ان کے بیانیے معاشرے کے بعض حصوں میں سرایت کر رہے ہیں۔

یونیورسٹی آف مائنز کی اس تحقیق کے نتائج ایک بار پھر سیاسی، ثقافتی اور میڈیا اداروں کے لئے اس بات کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہیں کہ نفرت انگیز اور انتشار پھیلانے والے بیانیوں کے مقابلے کے لئے مؤثر حکمتِ عملی اپنائی جائے۔

وہ بیانیے جو مذہب کا سہارا لے کر معاشرتی تقسیم کو گہرا کرتے اور پرامن بقائے باہمی کے لئے خطرہ بنتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button