29 جمادی الاول؛ یومِ وفات حضرت محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ

حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے دوسرے نائب خاص
حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے دوسرے نائب خاص جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ
جناب ابو جعفر محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اور آپ کے والدِ ماجد جناب عثمان بن سعید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نزدیک قابل اعتماد و اعتبار تھے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے ان کے بارے میں فرمایا:
"یہ جو بھی حکم تم لوگوں تک پہنچائیں وہ میری جانب سے ہے اور جو کہیں وہ میری ہی بات ہے، ان کی باتوں کو سنو اور ان کی پیروی کرو کیونکہ وہ میری نظر میں قابلِ اعتماد اور امین ہیں۔”
جب پہلے نائب خاص جناب عثمان بن سعید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی وفات ہوئی تو حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کو خط لکھا:
"إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ، تَسْلِیْمًا لِأَمْرِهِ وَرِضًا بِقَضَائِهِ…”
اس مبارک تحریر سے واضح ہے کہ جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا مقام و مرتبہ حضرت کے نزدیک بلند تھا۔
جناب ابو جعفر محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے والد کی وفات کے بعد تقریباً چالیس برس تک حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی وکالتِ خاصہ کی ذمہ داریاں بہ حسن و خوبی انجام دیں۔
عباسی حکمراں سمجھتے تھے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا کوئی جانشین نہیں، لہٰذا آپ اور آپ سے پہلے آپ کے والد نے مکمل تقیہ اختیار کیا تاکہ حکومت متوجہ نہ ہو۔
8 ربیع الاول 260 ہجری کو ہمارے گیارہویں امام حضرت حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت ہوئی اور ہمارے مولا و آقا حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی امامت کا آغاز ہوا۔
لیکن حالات اتنے سخت تھے کہ امام زمانہ علیہ السلام حکمِ خدا سے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہے، یعنی غیبتِ صغریٰ کا آغاز ہوا۔
عباسی حکومت امام زمانہ علیہ السلام تک پہنچ کر انہیں شہید کرنا چاہتی تھی، لہٰذا اہلِ بیت کے گھرانے کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جاسوس گھر گھر نگرانی کرتے تھے، اور جب داخلی دشمن (جعفر) بھی موجود ہو تو مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔
خمس کا مال لانے والا بھی بغیر خط کے ہی جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کو دیتا تاکہ تحریر نہ پکڑی جائے۔
جب عباسی وزیر نے حاکم کو بتایا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا فرزند زندہ ہے اور اس نے خاص وکلاء مقرر کیے ہیں تو حکم جاری ہوا کہ جاسوس چھوڑے جائیں تاکہ انہیں پکڑا جائے۔
ادھر حضرت امام زمانہ علیہ السلام نے حکم دیا کہ:
"جب تک میرا نیا حکم نہ آئے کوئی کسی سے کوئی رقم وصول نہ کرے۔”
جاسوس ایک وکیل کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ وہ اپنے مولا حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے لیے رقم بھیجنا چاہتا ہے، مگر وکیل نے امام کے حکم کے مطابق کہا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں۔
یوں امام زمانہ علیہ السلام نے دین اور مومنین دونوں کی حفاظت فرمائی۔
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ نوّابِ خاص نے کس قدر سخت حالات میں دین کی خدمت کی، اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو ان پر کتنا اعتماد تھا۔
جناب ابو جعفر محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ایک عظیم فقیہ بھی تھے۔ فقہ میں آپ کی کتاب کتاب الاشربۃ مشہور ہے، جسے آپ کی بیٹی اُم کلثوم نے حسبِ وصیت جناب حسین بن روح رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کو پہنچایا۔
دعائے سمات، دعائے افتتاح اور زیارتِ آلِ یاسین بھی آپ ہی سے مروی ہیں۔
جناب ابو جعفر محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی 29 جمادی الاول 305 ہجری کو بغداد میں رحلت ہوئی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کا مزار مقدس عاشقانِ اہلِ بیت علیہم السلام کی زیارت گاہ ہے۔




