عراق

محمد الحلبوسی کا عراق کا صدر بننے کی کوشش اور کردوں کا شدید ردِ عمل

محمد الحلبوسی کا عراق کا صدر بننے کی کوشش اور کردوں کا شدید ردِ عمل

روزنامہ العربی الجدید کے مطابق، عراق کی سنی سیاسی جماعت "تقدّم” جس کی قیادت محمد الحلبوسی کر رہے ہیں، ایک غیر معمولی سیاسی مہم کا آغاز کر چکی ہے تاکہ عراق کے صدر کا عہدہ حاصل کیا جا سکے۔

اس اقدام نے کرد قیادت کی شدید مخالفت اور کچھ شیعہ دھڑوں کی جانب سے ممکنہ سیاسی بحران کے بارے میں سخت انتباہات کو جنم دیا ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

عراق کی سب سے بڑی عرب سنی جماعت تقدم، محمد الحلبوسی کی سربراہی میں، کوشش کر رہی ہے کہ روایتی طور پر کردوں کے پاس رہنے والا عہدۂ صدارت اہلِ سنّت کو دیا جائے۔

شیعہ خبر رساں ایجنسی کے مطابق، مڈل ایسٹ نیوز نے بتایا ہے کہ اس کوشش کا مقصد طاقت کے توازن میں تبدیلی لانا ہے، اور اس کے بدلے میں پارلیمان کی اسپیکر شپ کردوں کو دینے کی تجویز ہے۔

محمد الحلبوسی کا کہنا ہے کہ چونکہ شیعوں کے بعد عرب سنی عراق کی دوسری بڑی آبادی اور سیاسی قوت ہیں، لہٰذا صدر کا عہدہ اہلِ سنّت کا حق ہے۔

ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہ منصب "اپنی اصل سنّی حیثیت” کی طرف لوٹنا چاہیے، جیسے 2003 کے بعد پہلی عراقی حکومت میں صدر کا انتخاب ایک سنّی رہنما کا کیا گیا تھا۔

2003 میں امریکی حملے کے بعد سے جلال طالبانی، فؤاد معصوم اور برہم صالح سمیت تمام عراقی صدور کرد رہنما رہے ہیں۔

العربی الجدید کے ذرائع کے مطابق، تقدم پارٹی کی یہ سیاسی سرگرمی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ سنی قیادت مذہب سے قطع نظر، عربی شناخت پر مبنی صدارت کی خواہاں ہے۔

اس سیاسی پیش رفت نے کرد حلقوں میں شدید ردِ عمل کو جنم دیا ہے۔

فؤاد حسین، عراقی وزیرِ خارجہ اور کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما، نے واضح طور پر کہا کہ صدارت کا منصب کردوں کا ہے اور یہ حق ہمیشہ برقرار رہے گا۔

کرد جماعت "وفاء” کی رہنما وفاء محمد کریم نے بھی کہا کہ کرد قوتیں اپنے سابقہ سیاسی سمجھوتوں پر قائم ہیں اور اس روایتی تقسیم میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیں گی۔

ادھر شیعہ اتحاد فریم ورک الائنس کے رکن عُدی الخدران نے کہا کہ صدر کے عہدے پر اب تک کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں ہوئے اور اس وقت توجہ وزیراعظم کے انتخاب پر مرکوز ہے۔

سیاسی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر یہ کشیدگی اسی طرح جاری رہی تو یہ صورتحال عراق میں نئے سیاسی بحران اور مختلف گروہوں کے درمیان طاقت کے مذاکرات کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button