
طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے کابل میں طالبان حکومت اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کے درمیان ہونے والے ہم آہنگی اجلاس میں عالمی سطح پر طالبان کی جاری سیاسی تنہائی پر ناراضگی کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ افغانستان کی نمائندگی کے لئے اقوام متحدہ میں موجود نشستیں طالبان کے نمائندوں کو سونپی جائیں۔
لیکن عالمی برادری نے اب تک اس اقدام سے گریز کیا ہے کیونکہ طالبان حکومت کو غیر مشروع سمجھا جاتا ہے اور اس کی پالیسیوں کو جابرانہ قرار دیا جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ ملاحظہ کریں۔
کابل میں افغان وزارتِ خارجہ کے مقر میں منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کے اداروں اور طالبان حکومت کے درمیان پانچویں ہم آہنگی اجلاس میں، امیر خان متقی نے عالمی سطح پر طالبان کی سیاسی تنہائی پر اعتراض کیا اور عالمی برادری سے اپنا رویہ تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔
ریڈیو فرانس (RFI) کے مطابق، امیر خان متقی نے کہا کہ جنیوا، آسٹریا اور دیگر ممالک میں اقوام متحدہ کے دفاتر مستقل نمائندوں کی موجودگی کے ساتھ کام کرتے ہیں، لیکن طالبان کا ابھی تک ان اداروں میں کوئی نمائندہ موجود نہیں ہے۔
انہوں نے مزید مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے دفاتر، خصوصاً نیویارک اور جنیوا میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والے سابقہ جمہوری حکومت کے نمائندوں کی جگہ طالبان کے ارکان کو مقرر کیا جائے۔
یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی برادری نے اب تک طالبان حکومت کو رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا اور اس کے جابرانہ اقدامات اور عدم مشروعیت کے باعث اسے اقوام متحدہ کی نشست دینے سے انکار کیا ہے۔
ریڈیو فرانس (RFI) کے مطابق، طالبان نے عالمی اداروں میں اپنی حیثیت مضبوط کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ کابل میں اقوام متحدہ کے خلاف کچھ پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔
حال ہی میں مثلاً طالبان نے اقوام متحدہ کے مرکزی دفتر کے سامنے خواتین کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی غرض سے سیکیورٹی اہلکار تعینات کئے ہیں۔
بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کو اقوام متحدہ میں افغانستان کی نشست ملنا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ اپنی داخلی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں نہ لائیں اور انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق کا احترام نہ کریں۔
اسی لئے طالبان کی عالمی سطح پر سیاسی تنہائی اب بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور عالمی برادری، اگرچہ افغانستان شدید انسانی بحران اور امداد کی ضرورت سے دوچار ہے، پھر بھی طالبان حکومت کو رسمی طور پر تسلیم کرنے سے فی الحال گریز کر رہی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ رپورٹ طالبان اور بین الاقوامی اداروں کے درمیان تعلقات میں موجود سنگین چیلنجز کی عکاسی کرتی ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ طالبان کی سیاسی تنہائی بدستور برقرار ہے۔




