عراق

عراق کے پارلیمانی انتخابات میں شیعہ دھڑوں کی برتری؛ سیاسی استحکام اور قومی خودمختاری کی سمت ایک قدم

عراق کے 2025 کے پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیعہ اتحادوں، خصوصاً محمد شیاع السودانی کی قیادت میں قائم "بازسازی و توسعه” (تعمیرِ نو و ترقی) اتحاد نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔

یہ انتخابات عراقی عوام کی قابلِ ذکر شرکت کے ساتھ منعقد ہوئے اور یہ ملک میں سیاسی استحکام اور قومی خودمختاری کے استحکام کے لئے ایک مؤثر موقع فراہم کر سکتے ہیں۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

عراق میں یہ انتخابات ایسے وقت میں منعقد ہوئے جب ملک کو معاشی مشکلات، علاقائی رقابتوں اور بیرونی سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔

رائٹرز کے مطابق، بعض گروہوں کی جانب سے بائیکاٹ کی اپیلوں کے باوجود اہل ووٹروں میں 56.11 فیصد نے حصہ لیا، جو پچھلے انتخابات کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی قانونی اور جمہوری طریقہ سے تبدیلی پر یقین رکھتی ہے۔

ڈوئچے ویلے کے مطابق، عراقی آزاد اعلیٰ الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ "بازسازی و توسعه” اتحاد، محمد شیاع السودانی کی قیادت میں، 13 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر کے پہلے نمبر پر رہا۔

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، اس اتحاد کے بعد دیگر شیعہ فہرستیں جیسے "دولتِ قانون”, "الصادقون”, "بدر” اور "دولتِ قوی” نے بھی قابلِ ذکر نشستیں حاصل کی ہیں۔ مجموعی طور پر، شیعہ دھڑوں نے ایک بار پھر پارلیمانی منظرنامے میں اپنی غالب پوزیشن برقرار رکھی ہے۔

مڈل ایسٹ نیوز کے مطابق، محمد شیاع السودانی نے نتائج پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور عراق کی دینی مرجعیت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ: "عراق سب کا ہے، اور سب کے لئے باقی رہے گا۔”

انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ حکومت کو تمام طبقات کی نمائندگی کرنی چاہیے — حتیٰ کہ ان افراد کی بھی، جنہوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔

ڈوئچے ویلے کی رپورٹ کے مطابق، اگرچہ شیعہ دھڑوں نے برتری حاصل کی ہے، تاہم کوئی بھی جماعت مطلق اکثریت حاصل نہیں کر سکی، اور نئی حکومت کی تشکیل کے لئے شیعہ، سنی اور کرد گروہوں کے درمیان سیاسی مذاکرات جاری ہیں۔

ماہرین کے مطابق، ان انتخابات کا نتیجہ مرکزی حکومت کی پوزیشن کے مضبوط ہونے اور بیرونی تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی کوششوں کو ظاہر کرتا ہے۔

اگرچہ بدعنوانی، معاشی مسائل اور جماعتی اختلافات جیسے چیلنجز بدستور موجود ہیں، لیکن نسبتاً پُرامن انتخابات اور ماضی کے مقابلے میں زیادہ عوامی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ عراقی عوام استحکام اور سیاسی تسلسل کے خواہاں ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button