ایران میں مہر کے قانون میں ترمیم؛ خواتین مالی حقوق کی بخشش کے بدلے طلاق کا حق حاصل کر سکیں گی
ایران میں مہر کے قانون میں ترمیم؛ خواتین مالی حقوق کی بخشش کے بدلے طلاق کا حق حاصل کر سکیں گی
ایرانی پارلیمنٹ نے مہر کے قانون میں ترمیمی بل منظور کر لیا ہے، جس کے تحت خواتین کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے مالی حقوق، بشمول مہر، سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائیں، تو وہ طلاق کا مطالبہ کر سکیں گی۔
یہ تبدیلی خواتین کے لیے علیحدگی حاصل کرنے کا راستہ آسان بنا سکتی ہے، لیکن خواتین کے حقوق کے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون دراصل شادیوں میں عدم مساوات کے ماحول میں عورتوں پر دباؤ ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
ایران کی مجلسِ شوریٰ کے ارکان نے "مہر کے قانون میں ترمیم اور طلاق میں آسانی” کے منصوبے کی تفصیلات جاری کی ہیں۔
شیعہ خبر رساں ایجنسی کے مطابق، جو انتخاب نیوز ویب سائٹ سے نقل کیا گیا ہے، نئے قانون کے تحت اگر عورت اپنی تمام مالی حقوق، بشمول مہر، سے دستبردار ہو جائے تو وہ بغیر عُسر و حرج (مشقت یا اذیت) ثابت کئے طلاق کی درخواست دے سکتی ہے۔
یہ دو نئی دفعات، شہری قانون کی شق 7 اور 11 میں شامل کی گئی ہیں، جن کا مقصد ان خواتین کے لیے علیحدگی کا راستہ آسان بنانا ہے جو ازدواجی زندگی میں مالی یا گھریلو مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔
اسی طرح، نئے قانون میں مہر کی حد 14 سکہ مقرر کی گئی ہے اور مہر کی عدم ادائیگی پر قید کی سزا ختم کر دی گئی ہے۔
اس کی جگہ، مہر کے قرضداروں کے لیے الیکٹرانک پابند (anklet) کے استعمال کی تجویز دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ اگر مرد، مہر کا مطالبہ موصول ہونے کے بعد اپنی جائیداد کسی اور کو منتقل کرتا ہے، تو یہ عمل "فرار از دَین” (قرض سے فرار) شمار ہوگا اور منتقل شدہ اموال واپس لے لیے جائیں گے۔
خواتین کے حقوق کے کارکنان اور سماجی ماہرین، جیسے ہاوجین بقّالی، نے زور دیا ہے کہ یہ قانون خواتین پر مزید اقتصادی و نفسیاتی دباؤ ڈال سکتا ہے، اور شادیوں میں حقیقی مساوات تب ہی ممکن ہے جب عورتوں کو مالی خودمختاری اور مردوں کے برابر قانونی حقوق حاصل ہوں۔
یہ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جب تک ملازمت، تعلیم، اور بچوں کی حضانت سے متعلق قوانین میں اصلاح نہیں کی جاتی، ایسی تبدیلیاں خواتین کی عزت و کرامت کی ضمانت نہیں دے سکتیں۔
اہلِ بیت علیہم السلام کی روایات کی روشنی میں، مہر کی بخشش کے بدلے طلاق حاصل کرنا شرعی طور پر جائز ہے۔
فقہائے شیعہ کا کہنا ہے کہ اگر عورت ازدواجی زندگی جاری رکھنے سے عاجز ہو یا شوہر کے ظلم و ستم کا سامنا کر رہی ہو، تو یہ اختیار اس کا قانونی حق ہے۔
اسلامی قانون کے ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ ملکی قوانین کو خواتین کی اقتصادی خودمختاری اور طلاق کے حق کی ضمانت دینی چاہیے تاکہ کوئی عورت اپنے حقوق سے ناحق دستبردار ہونے پر مجبور نہ ہو۔




