
صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (Reporters Without Borders) نے خبردار کیا ہے کہ طالبان افغانستان میں صحافیوں کو بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کرکے ان سے جبری اعترافات کروا رہے ہیں — یہ میڈیا کو دبانے اور ذلیل کرنے کا ایک نیا طریقہ ہے۔
ان اعترافات کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کی جا رہی ہیں، جو اس ملک میں میڈیا پر بڑھتے ہوئے دباؤ اور اظہارِ رائے کی آزادی کو محدود کرنے کی واضح نشانی ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان صحافیوں کی تذلیل اور اپنی گرفتاریوں کو جائز ظاہر کرنے کے لئے ان سے جبری اعترافات لیتے ہیں اور ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پھیلاتے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے RFI کے مطابق، اس تنظیم کی جنوبی ایشیائی سربراہ سیلیا مرسیئر نے زور دے کر کہا کہ "طالبان خوف و ہراس کی حکمتِ عملی کو دباؤ ڈالنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔”
رپورٹ میں صحافی مہدی انصاری کے کیس کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کی جبری اعترافی ویڈیو گزشتہ ماہ شائع ہوئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق، یہ کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ ایسا طرزِ عمل افغانستان میں روز بہ روز عام ہوتا جا رہا ہے۔
مہدی انصاری کی ویڈیو طالبان کی انٹیلیجنس سے وابستہ فیس بک صفحہ پر جاری کی گئی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے حکومت کے خلاف "گمراہ کن پروپیگنڈا” تیار کیا اور تبعید میں موجود میڈیا اداروں کے ساتھ تعاون کیا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ابوذر صارم سرپلی (خبر رساں ادارہ "توانا” کے سربراہ) اور شکیب احمد نظری (NTV جاپان کے صحافی) کو بھی غیر ملکی میڈیا کے ساتھ تعاون کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور ان کی اعترافی ویڈیوز بھی نشر کی گئیں۔
ذرائع کے مطابق، اسی دوران بشیر هاتف (زندون ٹی وی کے صحافی) کو بھی گرفتار کر لیا گیا، اور یہ تمام افراد تاحال جیل میں قید ہیں۔
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے مزید کہا کہ طالبان کی طرف سے ملک بھر میں انٹرنیٹ بند کرنا اور عوام کی معلومات تک رسائی محدود کرنا، میڈیا کو دبانے کے دیگر طریقے ہیں۔
اس تنظیم کی رپورٹ کے مطابق، سال 2025 میں افغانستان 180 ممالک میں آزادیِ صحافت کے عالمی اشاریے میں 175ویں نمبر پر ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ درجہ بندی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد صحافیوں اور میڈیا اداروں پر شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اور ملک میں اطلاعات کی ترسیل کی فضا انتہائی محدود ہو چکی ہے۔




