
ان دنوں تہران اور بیجنگ کے تعلقات، چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل رقابت کے تناظر میں عالمی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ شراکت داری ایشیائی ممالک کے کردار کو عالمی نظام میں مضبوط بنا سکتی ہے، جبکہ دیگر مبصرین اس بات پر خبردار کر رہے ہیں کہ یہ تعاون خطہ میں ایک نازک اور غیر مستحکم توازنِ طاقت پیدا کر سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
ایران اور چین کے درمیان تعاون — جو دونوں خطہ کے اہم جیو پولیٹیکل کردار ادا کرنے والے ممالک ہیں — تجزیہ کاروں اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
چین میں ایران کے سفیر عبدالرضا رحمانی فضلی نے طلبہ کے ایک اجتماع میں کہا کہ تہران اور بیجنگ کے درمیان متوازن تعاون علاقائی چیلنجز سے نمٹنے میں مؤثر ثابت ہو سکتا ہے اور "نئے ایشیا” کی تشکیل کے عمل کا حصہ بن سکتا ہے۔
جہاں قدیم تہذیبوں کے حامل خودمختار ممالک عالمی نظام میں اپنی جگہ دوبارہ متعین کر رہے ہیں۔
اخبار ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق، ایران و چین کا یہ ربط صرف اقتصادی و سفارتی تعلقات تک محدود نہیں، بلکہ جیو پولیٹیکل اور سیکیورٹی پہلوؤں کو بھی شامل کرتا ہے۔ ایران کے توانائی وسائل اور ٹرانزٹ راستوں پر زور کے ساتھ، یہ تعلقات چین کے ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے کے فریم ورک میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اقتصادی اور ٹیکنالوجیکل تعاون میں اضافے کہ جن میں بنیادی ڈھانچے، توانائی، اور ٹرانسپورٹ کے شعبے شامل ہیں، سے یہ اتحاد علاقائی تعاملات میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔
تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اور چین کے درمیان باہمی انحصار ایک حساس اور کمزور توازن پیدا کر سکتا ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب بین الاقوامی پابندیاں اور دباؤ دوبارہ فعال ہو جائیں۔
تہران میں چین کے سفیر کونگ پیوو نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ اگر ایران کے خلاف پابندیاں سخت ہوئیں تو بیجنگ کے مفادات متاثر ہو سکتے ہیں، اور چین مناسب ردعمل دے گا۔
بین الاقوامی میڈیا مثلاً انڈیپنڈنٹ فارسی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ چین کا یہ مؤقف مستقبل میں باہمی تعاون کی سطح پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور علاقائی سیاست کے نئے پیچیدہ پہلوؤں کو ظاہر کر سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ شراکت ایشیائی ممالک کے عالمی فیصلوں میں کردار کو بڑھانے کا موقع فراہم کر سکتی ہے، لیکن طاقت کے توازن کی غیر یقینی، جیو پولیٹیکل خطرات، اور علاقائی حساسیتیں اس اتحاد کے پائیدار ہونے پر سنجیدہ سوالات اٹھاتی ہیں۔
دوسری جانب، بعض ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ چین ممکن ہے ایران کو سستے وسائل اور کم قیمت تیل کی فراہمی کا ذریعہ سمجھے۔ پابندیوں اور ایران کے نسبتاً کمزور معاشی ڈھانچے کے پیشِ نظر، چین طویل المدتی ادائیگیوں کے ذریعے ایران کے وسائل سے وسیع پیمانے پر فائدہ اٹھا سکتا ہے — جو ایران کی بیجنگ پر اقتصادی وابستگی کے نئے پہلو سامنے لا سکتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایران و چین کے تعلقات ایک ہی وقت میں مواقع اور چیلنجز دونوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں، جو مستقبل کے ایشیا اور علاقائی روابط کی سمت متعین کریں گے۔
				
					



