افغانستان کے شیعہ علاقوں میں زمینوں کی ضبطی؛ طالبان کے فیصلے پر تشویش

طالبان کی عبوری حکومت کی جانب سے افغانستان کے مختلف صوبوں میں نو رہائشی کالونیوں پر قبضہ کرنے کے فیصلے نے مقامی کارکنوں اور ماہرین کی جانب سے سخت تنقید کو جنم دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام شیعہ نشین علاقوں کے مکینوں کی زمینوں کی ضبطی اور نسلی کشیدگی میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
یکم نومبر 2025 بروز ہفتہ طالبان حکومت کی وزارتِ انصاف نے ایک اعلامیے میں اعلان کیا کہ "زمینوں کے غصب کی روک تھام کے لئے کمیشن” کے قیام کے بعد، ملک کے مختلف صوبوں میں نئی کالونیاں طالبان کے کنٹرول میں آ گئی ہیں۔
شیعہ خبررساں ایجنسی کے مطابق، ان کالونیوں میں کابل میں ملا ترہخیل، سردار محمد داوود خان اور ملا عزت کی کالونیاں، بلخ میں خالد بن ولید کالونی، میدان وردک میں شہر نو کالونی، غزنی میں حکیم سنائی اور نوآباد کالونیاں، اور ننگرہار میں حاجی قدیر اور اسحاق گیلانی کالونیاں شامل ہیں۔
وزارتِ عدلیہ (انصاف) کے اعلامیے کے مطابق، یہ املاک مجموعی طور پر پچاس جریب (تقریباً ۲۵ ایکڑ) زمین پر مشتمل ہیں، اور طالبان کے بقول، ان کی "شرعی فیصلے” کے نتیجے میں ان زمینوں کو حکومت کی ملکیت میں واپس لایا گیا ہے۔
مزید یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ پورے افغانستان میں تقریباً چار ملین جریب زمین مبینہ طور پر "غاصبوں” سے واپس لے کر حکومت کے کنٹرول میں دی گئی ہے۔
تاہم مقامی کارکنوں اور شہری ناظمین نے زمینوں کی ملکیت کے معاملات میں شفافیت کی کمی پر تشویش ظاہر کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہزاره جات اور دیگر شیعہ نشین علاقوں میں یہ پالیسی زمینوں کی ضبطی اور مقامی باشندوں کی بے دخلی کا باعث بن سکتی ہے — جیسا کہ ماضی میں کوچیوں کے حملوں اور نسلی تنازعات کے دوران دیکھا گیا تھا۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایک آزاد اور شفاف عدالتی نظام کی عدم موجودگی میں، "شرعی فیصلے” کے نام پر یکطرفہ اقدامات افغانستان میں نسلی و مذہبی کشیدگی کو بڑھا سکتے ہیں اور ان علاقوں میں عدم استحکام پیدا کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسی پالیسیوں کے نفاذ کے سماجی اور انسانی نتائج نہایت سنگین ہو سکتے ہیں، خاص طور پر جب ان پر عدالتی نگرانی اور انصاف کا نظام موجود نہ ہو۔
				
					



