اردن کے جنوب میں قومِ عاد اور شہرِ اِرم کا ممکنہ مقام دریافت
اردن کے جنوب میں قومِ عاد اور شہرِ اِرم کا ممکنہ مقام دریافت
تازہ آثارِ قدیمہ کی تحقیقات سے اشارہ ملتا ہے کہ قرآنِ مجید میں مذکور قومِ عاد اور ان کا شہر اِرم دراصل جنوبی اردن میں واقع تھا، نہ کہ یمن میں جیسا کہ صدیوں سے سمجھا جاتا رہا ہے۔
ماہرینِ آثارِ قدیمہ احمد الجلاد اور دیگر محققین کی تحقیق اور نبطی کتبوں کے مطالعے سے یہ ثبوت سامنے آئے ہیں کہ قومِ عاد اور شہرِ اِرم وادیِ رم اور جبلِ رم کے علاقوں میں آباد تھے۔
فرانسیسی ماہرین ساوینیگاک اور ہورس فیلڈ نے ایک قدیم مندر میں نبطی کتبہ دریافت کیا جس میں “اِرم کے عظیم خدا” کا ذکر ہے، جبکہ ایک اور کتبہ عین الشلالہ سے ملا جس میں لات، اِرم کی دیوی، کا ذکر کیا گیا ہے۔ وادیِ رم میں ملنے والے ایک اور کتبے میں قومِ عاد کا ذکر مندر کی تعمیر کے حوالے سے کیا گیا ہے۔
۲۰۱۵ء میں ہونے والی ایک کھدائی میں قومِ عاد کے افراد کی قبریں اور تعزیتی تحریریں بھی ملی ہیں جو ان کے طویل قیام کی نشاندہی کرتی ہیں۔
ڈاکٹر الجلاد کے مطابق سورۂ فجر کی آیات ۶ اور ۷ کا مفہوم “بِعادِ اِرم ذات العماد” یوں سمجھا جانا چاہیے کہ “عاد، اِرم کے لوگ، جو ستونوں والا شہر تھا۔” اس سے واضح ہوتا ہے کہ عاد اس قوم کا نام اور اِرم ان کا شہر تھا۔
ماہرِ نقوش عرش جمشیدپور نے بھی نبطی کتبوں کی بنیاد پر اس نظریے کی تائید کی ہے، جن میں “عاد” اور “اِرم” کے نام براہِ راست درج ہیں۔
یہ دریافتیں قرآنِ کریم کے تاریخی بیانات پر نئی روشنی ڈالتی ہیں اور اس “ریگستانی اٹلانٹس” کے وجود کے ممکنہ ثبوت فراہم کرتی ہیں۔




