سعودی عرب میں ایک شیعہ مخالف شخصیت کو مفتیِ اعظم مقرر کیا گیا؛ نئے مفتی کی اہلِ بیتؑ کے پیروکاروں سے کھلی دشمنی کا پس منظر
سعودی عرب میں ایک شیعہ مخالف شخصیت کو مفتیِ اعظم مقرر کیا گیا؛ نئے مفتی کی اہلِ بیتؑ کے پیروکاروں سے کھلی دشمنی کا پس منظر
سعودی عرب میں "صالح الفوزان” کو نئے مفتیِ اعظم کے طور پر تقرر کرنے پر انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے سخت ردِعمل سامنے آیا ہے۔
بین الاقوامی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ ان کے شیعہ اقلیت کے خلاف نفرت انگیز بیانات کا سابقہ ریکارڈ اس ملک میں مذہبی امتیاز میں مزید اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
صالح الفوزان کی مفتیِ اعظم کے طور پر تقرری نے اندرونِ ملک اور عالمی سطح پر تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے۔
شیعہ خبررساں ایجنسی نے ہیومن رائٹس واچ کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ ماضی میں کئی مواقع پر اپنی تقریروں اور تحریروں میں اہلِ بیتؑ کے پیروکاروں کے بارے میں توہین آمیز الفاظ جیسے "رافضی” اور "شیطان کے بھائی” استعمال کرتے رہے ہیں، اور انہیں اسلام کے دائرے سے خارج قرار دیتے آئے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے خبردار کیا ہے کہ سعودی عرب کے سرکاری علماء میں موجود یہی شیعہ مخالف سوچ، برسوں سے اس اقلیت کے خلاف منظم امتیاز کی بنیاد بنی ہوئی ہے۔
دی گارڈین کے مطابق، صالح الفوزان کی تقرری شاہی فرمان کے ذریعہ ولی عہد کی سفارش پر عمل میں آئی ہے، اور وہ اب سعودی عرب کی سینئر علماء کونسل کے سربراہ بھی ہے۔
یہ کونسل سعودی عرب کا سب سے اعلیٰ مذہبی ادارہ ہے جس کے نظریات اور فتوے ملک کی دینی و سماجی پالیسیوں پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے شخص کو مذہبی قیادت کے اعلیٰ ترین منصب پر بٹھانا سعودی عرب میں مذہبی اقلیتوں اور اہلِ بیتؑ کے پیروکاروں کے لئے ایک تشویشناک پیغام ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے مزید کہا کہ حالیہ برسوں میں سرکاری علماء نے منبروں اور میڈیا کے ذریعہ فرقہ وارانہ نفرت کو فروغ دیا ہے، اور یہی فکری ماحول شیعوں کے خلاف امتیاز، گرفتاریوں اور حتیٰ کہ سزائے موت کے لئے جواز فراہم کرتا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، رواں سال بھی کئی شیعوں کو سیاسی یا مذہبی الزامات (جو زیادہ تر بے بنیاد تھے) کے تحت پھانسی دی گئی، جس پر انسانی حقوق کے اداروں نے سخت احتجاج کیا ہے۔
انسانی حقوق کے ماہرین نے صالح الفوزان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ماضی کے نفرت انگیز بیانات سے علانیہ توبہ کریں اور مذہبی رواداری و پرامن بقائے باہمی کی سمت قدم بڑھائیں۔
انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر شیعہ مخالف رویہ جاری رہا، تو سعودی عرب نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ عالمی برادری کی نظر میں بھی مزید تنہائی اور بدنامی کا شکار ہو جائے گا۔




