جنگ بندی کے دوران کشیدگی: اسرائیلی فضائی حملوں میں غزہ میں 100 سے زائد افراد ہلاک

غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ حملوں کے دوران متعدد مقامات کو نشانہ بنایا گیا، جن میں ہتھیاروں کے ذخیرے، سرنگیں اور ایک حماس کمانڈر کا ٹھکانہ شامل ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق وسطی اور شمالی غزہ میں رات بھر جاری رہنے والے حملوں نے کئی گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا، اور بعض خاندان مکمل طور پر ختم ہوگئے۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق بدھ کے روز کم از کم 104 افراد ہلاک ہوئے، جو رواں ماہ کے اوائل میں امریکی ثالثی سے طے پانے والی جنگ بندی کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی ہلاکتیں ہیں۔ (رائٹرز) کے مطابق یہ بمباری اُس وقت کی گئی جب منگل کے روز ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہوا، جس کا الزام اسرائیل نے جنگ بندی زون میں سرگرم مسلح افراد پر عائد کیا۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی “مخصوص جوابی حملہ” تھی، جس میں درجنوں حماس سے منسلک ٹھکانے تباہ کیے گئے۔ فوج کے مطابق 24 اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جن میں ایک حماس کمانڈر بھی شامل تھا جو 7 اکتوبر 2023 کے جنوبی اسرائیل حملے میں ملوث بتایا جاتا ہے۔ بیت لاہیا میں بھی فضائی حملے کیے گئے، جہاں اسرائیل کا کہنا تھا کہ اسلحہ ذخیرہ کیا جا رہا تھا۔ طبی ذرائع نے وہاں دو اموات کی تصدیق کی۔
غزہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ ہلاک شدگان میں خواتین اور بچے شامل ہیں، جبکہ حماس کے میڈیا دفتر نے اسرائیل پر “جھوٹی معلومات پھیلانے” کا الزام عائد کیا تاکہ شہریوں پر حملوں کو جواز دیا جا سکے۔ نُصیرات میں ایک رات کے حملے نے ابو دلال خاندان کے گھر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، جس میں تمام افراد جاں بحق ہوگئے۔
اس شدید بمباری کے باوجود اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے پر قائم ہے، تاہم کسی بھی خلاف ورزی کا “مضبوطی سے جواب” دیا جائے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے اپنے دوسرے دورِ صدارت میں یہ معاہدہ کرایا تھا، نے اسرائیلی کارروائی کو “جائز جوابی اقدام” قرار دیا اور کہا کہ جنگ بندی خطرے میں نہیں۔
قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے تازہ حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں “مایوس کن اور افسوسناک” قرار دیا۔
جنگ بندی کے تحت حماس نے تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا، جبکہ اسرائیل نے تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا اور اپنی بڑی فوجی کارروائیاں روک دی تھیں۔ تاہم، یرغمالیوں کی باقیات کی واپسی اور آئندہ سکیورٹی انتظامات پر اختلافات بدستور موجود ہیں، اور مقامی باشندوں کو خدشہ ہے کہ تازہ فضائی حملے اس نازک امن کو ایک بار پھر خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔




