ترکی سے پی کے کے (P.K.K) کا انخلا اور اس کی مسلح شاخوں کی جانب سے ایران و عراق کی سلامتی کے لئے خطرات
ترکی کی سرزمین سے "پی کے کے” کے جنگجوؤں کے انخلا کا اعلان بظاہر صرف ایک جغرافیائی تبدیلی ہو سکتا ہے، کیونکہ اس کی ذیلی تنظیمیں جیسے "پژاک” اب بھی ایران اور عراق کی سرحدوں کے لیے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس اقدام پر سخت نگرانی نہ رکھی گئی تو یہ عمل کرد نشین علاقوں میں عدم استحکام اور بدامنی کا باعث بن سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
"پی کے کے” نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے جنگجوؤں کو ترکی سے واپس بلا رہا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ محض مقام کی تبدیلی ہے، اصل خطرہ اب بھی باقی ہے۔
بعض ماہرین کے مطابق، ایران میں سرگرم اس تنظیم کی شاخ "پژاک” اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہے اور امکان ہے کہ "پی کے کے” کے جنگجو اور اسلحے اس کی جانب منتقل ہو جائیں۔
یہ صورتحال ایران اور عراق کی سرحدی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق، "پی کے کے” شروع میں ایک ایسی تنظیم تھی جس کا ہدف ترکی میں قومی بنیادوں پر سرگرمی تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس نے اپنی کارروائیاں سرحدوں سے باہر پھیلا دیں اور ہمسایہ ممالک میں اپنی شاخیں قائم کیں۔
"پژاک” اس گروہ کی فعال شاخ ہے جو ایران میں سرگرم ہے۔ ترکی سے جنگجوؤں کے انخلاء کے بعد امکان ہے کہ یہ گروہ شمالی عراق اور ایران کے کرد نشین علاقوں میں اپنی جنگی طاقت میں اضافہ کرے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایران کے سرحدی علاقے غربت، بے روزگاری اور سماجی خدمات کی کمی جیسے مسائل سے دوچار ہیں، اور یہ خلا مسلح گروہوں کے لئے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کا سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، سرحدی علاقوں کے کئی دیہاتوں اور قصبوں میں خاندان اور بچے "پی کے کے” کی موجودگی کے اثرات سے متاثر ہیں، جبکہ خواتین کو "آزادی اور حمایت” کے وعدوں کے ذریعہ ان گروہوں میں شامل کیا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں نے زور دیا ہے کہ اگر "پی کے کے” واقعی امن کے لئے سنجیدہ ہے تو اسے اپنی تمام شاخوں کو غیر مسلح کرنا ہوگا اور ماضی میں ہونے والے نقصانات کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔
علاقائی حکومتیں بھی محض تماشائی نہیں بن سکتیں۔
سفارتی ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ اگر جنگجوؤں کی نقل و حرکت پر قابو نہ پایا گیا تو دوبارہ سرحدی جھڑپیں بھڑک سکتی ہیں، جن کا انسانی خمیازہ مقامی آبادی کو بھگتنا پڑے گا۔
ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ علاقائی تعاون اور مسلح شاخوں کی سخت نگرانی نہایت ضروری ہے اور ان کے مطابق صرف فعال سفارت کاری اور ان گروہوں کی اصلاحی بازپروری کے ذریعہ ہی تشدد کے اس چکر کو روکا جا سکتا ہے۔




