سعودی عرب میں مخالف دھڑوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ؛ بن سلمان کو مخالفین کے بڑھتے اثر اور نوجوانوں کی بیداری سے خوف لاحق
سعودی عرب میں مخالف دھڑوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ؛ بن سلمان کو مخالفین کے بڑھتے اثر اور نوجوانوں کی بیداری سے خوف لاحق
مخالف گروہوں کی سرگرمیوں میں وسعت اور نوجوانوں کے لئے بیداری پیدا کرنے والے پروگراموں کی تیاری نے سعودی عرب میں اقتدار کے قریب حلقوں کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان مخالف تحریکوں کا اثر نوجوان نسل اور فوجی افسران میں بڑھنے لگا ہے، جس کی وجہ سے سعودی حکام کو محدود کرنے اور مقابلے کی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
گزشتہ چند برسوں میں ایسے پروگرام اور سرگرمیاں جو نوجوانوں میں بیداری اور حکومت پر تنقید کے مقصد سے انجام دی جا رہی ہیں، نئی نسل کی خاص توجہ کا مرکز بنی ہیں اور فوج کے نوجوان افسران اور سکیورٹی اداروں میں بھی قابلِ ذکر اثر و رسوخ حاصل کر چکی ہیں۔
ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی حلقوں کے نزدیک یہ رجحان حکومت کی جَوازیت (مشروعیت) اور استحکام کے لئے ایک سنجیدہ خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔
عربی ذرائع ابلاغ اور خبر رساں اکاؤنٹ "مجتہد” کی رپورٹس کے مطابق، بعض ایسے مخالف شخصیات جو پہلے سرکاری اداروں میں خدمات انجام دے چکی ہیں اور معتبر خاندانوں اور قبیلوں سے تعلق رکھتی ہیں، اپنے متوازن رویے اور قائل کرنے کی صلاحیت کے سبب نوجوانوں اور فوجی افسران میں مقبول ہو گئی ہیں۔ ان شخصیات نے عوامی رائے اور اپنے ہم عمروں پر براہِ راست اثر ڈالا ہے، جس نے سعودی حکام کو سخت پریشان کر دیا ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ "مجتہد” ایک گمنام اور افشاگر ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے جو سعودی شاہی خاندان اور سکیورٹی اداروں کی اندرونی خبریں شائع کرتا ہے۔
یہ اکاؤنٹ خفیہ معلومات اور حکومت کے اندرونی اختلافات کو منظرِ عام پر لانے کے باعث مشہور ہوا ہے، جبکہ اس کے پسِ پردہ شخص کی شناخت تاحال ظاہر نہیں ہوئی۔
اس صورتِ حال کے ردِ عمل میں، حکومت کے بعض حلقوں نے سخت اقدامات جیسے کہ مخالفین کو ختم کر دینے (قتل کرنے) کے منصوبے تجویز کئے، لیکن جمال خاشقجی کے قتل کے نتائج کے باعث ان منصوبوں کو ترک کر دیا گیا۔
اس کے بجائے حکومت نے نوجوانوں اور فوجی افسران کے لئے تعلیمی، ثقافتی اور تبلیغی پروگرام شروع کئے ہیں تاکہ مخالف گروہوں کے اثر کو محدود کر کے نئی نسل پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا جا سکے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سخت سیکورٹی اقدامات اور پابندیاں نسلوں کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر سکتی ہیں اور مخالف تحریکوں کی سماجی پوزیشن کو مضبوط کر سکتی ہیں۔
اسی بنا پر بعض حکومتی ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نوجوان نسل کے مطالبات اور تشویشات کو سننے کے لئے گفت و شنید (ڈائیلاگ) اور کھلے مواقع فراہم کرنا مستقبل کے ممکنہ بحرانوں سے بچاؤ کے لئے نہایت ضروری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ مخالف تحریکوں کو دباؤ اور سکیورٹی پابندیوں کے ذریعہ قابو میں لانا ممکن نہیں۔ نوجوان نسل کے شعور، عوامی مطالبات، اور اقلیتوں خصوصاً سعودی عرب کے شیعوں کے حقوق کا احترام — یہ سب وہ عوامل ہیں جو مستقبل میں حکومت کے استحکام اور جَوازیت کو قائم رکھنے کی کنجی ثابت ہو سکتے ہیں۔



